حکومت نے پنجاب میں قومی اسمبلی کے حلقے این اے 75 سیالکوٹ ڈسکہ کے ضمنی انتخابات کو کالعدم قرار دیتے ہوئے 18 مارچ کو پورے حلقے میں دوبارہ انتخاب کروانے سے متعلق الیکشن کمیشن کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔
پنجاب کے حلقے این اے 75 ڈسکہ میں رواں ماہ 19 فروری کو ضمنی انتخابات کے دن 20 پولنگ سٹیشنز کے عملے کے ارکان کے کئی گھنٹے تک غائب رہنے پر نتائج کا معاملہ الیکشن کمیشن تک پہنچا تھا۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے نتائج روک کر جاری کی گئی وضاحت میں پولنگ سٹیشنز کے عملے کی جانب سے بلاوجہ تاخیر، چیف سیکرٹری پنجاب اور آئی جی پنجاب کی جانب سے تعاون نہ کرنے کا شکوہ کیا گیا تھا۔
الیکشن کمیشن نے اس تمام معاملے کی مکمل چھان بین اور سماعت کے بعد آج جاری کیے گئے اپنے مختصر فیصلے میں کہا کہ پنجاب حکومت ڈسکہ میں شفاف اور پرامن انتخابات منعقد کروانے میں ناکام رہی ہے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ ’فائرنگ سے ووٹرز کو خوفزدہ کیا گیا، نتائج میں بے ضابطگیاں دیکھنے میں آئیں اور انتخابی ماحول کو خراب کیا گیا، اس لیے 19 فروری کو ہونے والے انتخاب کو کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔‘
یہ معاملہ الیکشن کے روز سے ہی سیاسی منظر نامہ پر چھایا ہوا تھا اور حکومتی اور اپوزیشن رہنماؤں میں ایک دوسرے پر الزامات عائد کرنے اور بیان بازی کا سلسلہ بھی جاری تھا۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے سامنے آنے والے فیصلے پر وفاقی وزیر اظلاعات شبلی فراز نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ’جو فیصلہ آیا اسے مد نظر رکھتے ہوئے تفصیلی فیصلہ جاری ہونے پر آج ہی اگلا قدم اٹھانے کا فیصلہ کریں گے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’فخر ہے کہ اداروں کو آزاد رکھنے کا جو وعدہ کیا تھا وہ پورا کیا، کسی ادارے پر دباؤ نہیں ڈالا۔ مسلم لیگ ن نے ہمیشہ دھاندلی اور بدمعاشی کی سیاست کو فروغ دیا۔ یہ شکست ہے اس مائینڈ سیٹ کی جو اداروں کی بالادستی نہیں مانتے، پسند کے افسران بٹھا کر من پسند فیصلے لینے والوں کے لیے یہ ایک مثال ہے۔‘
الیکشن کمیشن کی کارروائی اور فریقین کا موقف
چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے اس معاملے کی سماعت پیر (22 فروری) کو شروع کی تھی۔ الیکشن کمیشن میں این اے 75 کے ریٹرننگ آفیسر نے رپورٹ بھی جمع کروائی۔ جس میں انتخابی بے ضابطگیوں اور بدانتظامی کی شکایات کی گئی تھیں۔
الیکشن کمیشن میں ن لیگ کی امیدوار نے پورے حلقے کے انتخابات دوبارہ کرانے کی درخواست دی تھی جبکہ وزیر اعظم نے بھی بیان دیا تھا کہ وہ دھاندلی کے خلاف ہیں، لہذا اگر ن لیگی امیدوار کو شبہ ہے تو متنازع نتائج کے حامل 20 پولنگ سٹیشنوں پر دوبارہ انتخاب کرانے چاہییں، جس پر مریم نواز نے ردعمل دیا تھا کہ جب ’چوری پکڑی گئی تو ہوشیاری نہ دکھائی جائے، اب فیصلہ الیکشن کمیشن کو کرنا ہے۔‘
ن لیگ کی امیدوار کی جانب سے فارم 45 بھی جمع کروائے گئے اور ویڈیوز کے ساتھ دیگر شواہد بھی دیے گئے جن میں بدنظمی اور دھاندلی سے نتائج تبدیل کرنے کی شکایت کی گئی تھی۔
الیکشن کمیشن میں پی ٹی آئی امیدوار نے بھی ریکارڈ جمع کرایا جس میں ان کا دعویٰ تھا کہ جن 20 پولنگ سٹیشنز کے عملے کے غائب ہونے کا الزام ہے وہ دھند کے باعث بروقت ریٹرننگ آفیسر کے دفتر نہیں پہنچ پائے۔
ن لیگی امیدوار کے مطابق الیکشن کمیشن کے احکامات کے باوجود پولیس آفیسر ذوالفقار ورک کو حلقے میں سکیورٹی کی ذمہ داریوں سے نہیں ہٹایا گیا، لہذا جو بھی انتخابی عمل کی سازش میں ملوث تھے ان کو سرکاری عہدوں سے ہٹایا جائے۔
چیف الیکشن کمشنر نے قرار دیا کہ ’فراڈ کے ذمہ داران کو مثالی سزائیں دینے سے آئندہ انتخاب میں الیکشن کمیشن کی رٹ قائم رہے گی۔‘
اس کیس کی پیروی کے لیے مسلم لیگ ن کی امیدوار کے وکیل سلمان اکرم راجہ پیش ہوئے جبکہ حکمران جماعت کی نمائندگی پہلے محمد علی بخاری اور اس کے بعد بیرسٹر علی ظفر نے کی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ن لیگی امیدوار کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ڈسکہ میں پولنگ کے دن بہت سی بد انتظامی اور بے ضابطگیاں دیکھی گئیں۔ پہلے ن لیگ کے اکثریتی ووٹرز پر مشتمل پولنگز سٹیشنز پر ہنگامہ آرائی کرا کے پولنگ روکی گئی اور پھر فائرنگ سے ووٹرز کو خوفزدہ کرنے کی کوشش ہوتی رہی، فائرنگ سے دو افراد بھی قتل ہوگئے۔
’اس کے باوجود جب ن لیگی امیدوار کو شکست نہ دی جا سکی تو 20 پولنگ سٹیشنز کا عملہ ہی غائب کر دیا گیا اور نتائج تبدیل کیے گئے۔‘
سلمان اکرم راجہ نے دلائل دیے کہ یہ ایک ’منظم دھاندلی‘ کی سازش تھی جو ’کہیں اور تیار‘ ہوئی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’چیف سیکرٹری اور آئی جی پنجاب نے الیکشن کمیشن کی ہدایت کے باوجود لاپتہ عملے کو تلاش کرنے کی کوشش نہیں کی، الیکشن رولز کے مطابق افسران کے تبادلوں پر بھی عمل نہیں کیا اور ڈی ایس پی ذوالفقار ورک کو ذوالفقار علی کے نام سے دوبارہ تعینات کر دیا گیا۔‘
سلمان اکرم راجہ کا مزید کہنا تھا کہ ’وہ بیان حلفی بھی جمع کرا چکے ہیں۔ اس کے بعد فارم 45 اور تاخیر سے پہنچنے والے پولنگ عملے کے نتائج تبدیل تھے جبکہ ووٹنگ کی شرح باقی پولنگ سٹیشنز پر 30، 35 جبکہ ان نتائج میں 65 سے 70 فیصد ظاہر کی گئی۔‘
سلمان اکرم راجہ کے مطابق: ’337 پولنگ سٹیشنز کے نتائج میں ن لیگ کی امیدوار کامیاب ہوئیں لیکن مارجن کم تھا جبکہ نتائج تبدیل ہونے کے بعد پی ٹی آئی امیدوار کی کامیابی یقینی بنانے کی کوشش ہوئی۔‘
دوسری جانب پی ٹی آئی امیدوار کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے ن لیگی امیدوار کے الزامات مسترد کر دیے۔
ان کا کہنا تھا کہ ووٹ کاسٹ کرنے سے کسی کو نہیں روکا گیا اور پولنگ عملے کے لیے نتائج جمع کرانے کا کوئی ٹائم فریم نہیں، ان کی تاخیر سے آمد کو دھاندلی کا موجب قرار نہیں دیا جا سکتا۔‘
سیدہ نوشین افتخار نے پہلی درخواست میں موقف اختیار کیا کہ 337 پولنگ سٹیشنز کا نتیجہ مل گیا جو انہیں قبول بھی ہے جبکہ 23 پولنگ سٹیشن کے رزلٹ پر اعتراض کیا اور 23 پولنگ سٹیشنز پر دوبارہ پولنگ کا مطالبہ کیا لیکن بعد میں پورے حلقہ میں دوبارہ الیکشن کا مطالبہ کر دیا۔
معاملے کا پس منظر
ڈسکہ میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ ن کی امیدوار نوشین افتخار اور ان کے مد مقابل پی ٹی آئی امیدوار اسجد ملہی نے مختلف اعتراضات اٹھائے تھے۔
مسلم لیگ نے الیکشن کمیشن کے سامنے شکایات رکھیں کہ 20 پولنگ سٹیشنز کے عملے کو حکومت کی ایما پر غائب کر کے نتائج تبدیل ہوئے۔ حلقے کے کل 360 پولنگ سٹیشنز میں سے 337 کے نتائج میں ن لیگ کی امیدوار نے زیادہ ووٹ حاصل کیے جبکہ جن پولنگ سٹیشز کا عملہ غائب ہوا، وہاں ردوبدل کر کے پی ٹی آئی امیدوار کو کامیاب کروانے کی کوشش ہوئی۔
یہ بھی الزام عائد کیا گیا کہ فارم 45 جو پریزائیڈنگ افسران امیدواروں کے پولنگ ایجنٹس کو فراہم کرتے ہیں، میں نتائج مختلف ہیں۔
پولنگ کے دن این اے 75 میں پورا دن ہی ہنگامہ آرائی ہوتی رہی، مختلف پولنگ سٹیشنز بند ہونے پر لڑائی جھگڑے دیکھنے میں آئے۔ موٹر سائیکل سواروں کی فائرنگ سے خوف وہراس پھیلنے کے علاوہ دو افراد بھی قتل ہوئے جن میں ایک ن لیگ جبکہ دوسرا پی ٹی آئی کا تھا۔