تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور پاکستان جمہوری تحریک (پی ڈی ایم) موجودہ ناکارہ جمہوریہ کے خالق ہیں۔ یہ جمہوریہ صرف اشرافیہ کے مفاد کے لیے قائم ہے۔ ثبوت کے طور پر پیش خدمت ہے پنجاب کا سینیٹ الیکشن جہاں باہمی اشتراک سے ان پارٹیوں نے سیٹوں کی تقسیم کی۔
یہ تحریر آپ مصنف کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں
مریم نواز نے جن سے ہاتھ ملا کر سینٹ کی سیٹیں آپس میں بانٹیں انہیں وہ پیار سے ووٹ چور بلاتی ہیں۔ جبکہ عمران خان انہیں کرپٹ ترین سمجھتے ہیں اور ہر روز قوم کو بتاتے ہیں کے وہ این آر او نہیں دیں گے۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کے دوسرے صوبوں میں بھی اسی قسم کا بندوبست کرنے پر بات چیت جاری ہے۔
مجھے اس اشتراکی معاہدے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ میں تو کئی ماہ سے ان سے التجا کر رہا ہوں کہ یہ جمہوریہ ان ہی کے لیے ہے اسے مل بیٹھ کر کھائیں اور لڑیں مت۔ سینیٹ میں ان کی کوئی لڑائی نہ ہوئی تو دیکھیں عوام کے کسی آدمی کی موت واقع نہ ہوئی۔ ڈسکہ میں بھی اگر یہی اشتراکیت کرتے تو کم از کم عوام کے دو لوگ اپنی جان نہ گنواتے۔
پچھلے کئی ماہ سے اس اشرافیہ نے عوام کے سر میں درد کیا ہوا تھا کہ ووٹ کھلا ہو یا خفیہ ہو۔ سپریم کورٹ کا بھی وقت ضائع کیا۔ تجزیہ نگار بھی گھنٹوں گھنٹوں اس پر فضول بحث کر رہے تھے جس کا نہ کوئی سر تھا نہ پیر۔ عوام کو یہ بھی بتا رہے تھے کہ ممبر صوبائی اسمبلی بک جاتے ہیں۔
شکر ہے اس مویشی منڈی میں صوبائی اسمبلی کے ممبر نہ بکے صرف ٹکٹ بکے اور سیاسی پارٹیاں بکیں۔ میں تمام سینیٹر بننے والوں کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ ان میں سے کئی کو بہت اچھی طرح جانتا ہوں اور انہیں یہ اہم عہدہ مبارک ہو۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مگر آپ کو انتہائی افسوس سے اطلاع دے رہا ہوں کہ یہ تمام سینیٹرز ان ہی لوگوں کے وفادار ہوں گے جنہوں نے یہ اہم عہدہ دیا اور یہ ربڑ سٹمپ کا کام بخوبی کریں گے۔ صدر پاکستان کی مثال آپ کے سامنے ہے پچھلے ڈھائی سال سے انتہائی کامیابی سے ہر آرڈیننس اور جوڈیشل ریفرنس پر بغیر غور کیے دستخط کر رہے ہیں۔ پارٹی مالکان کی تنخواہ دار پارلیمان اور سینٹ سے اس عوام بیچاری کا کیا تعلق۔
پی ڈی ایم، پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ آپس میں رشتہ دار ہیں۔ اب دیکھیں وہ تمام سینیٹر بن گئے جن پر اسٹیبلشمنٹ کو کوئی اعتراض نہیں تھا یہاں تک کہ ان کے کاغذات بھی قبول ہوئے جو پیدائشی امریکن ہیں اور لون ڈیفالٹ کے بھی کئی مقدمہ بھگتا رہے ہیں۔
جو ناقابل قبول تھے ان کے کاغذات نامنظور ہی رہے۔ حاصل بزنجو قابل قبول نہ تھے تو اکثریت ہوتے ہوئے بھی جیت نہ سکے اور یوسف رضا گیلانی قبول ہیں تو اقلیتی ووٹ ہوتے ہوئے بھی جیت کی لگن ہے۔
اصل جیت اسٹیبلشمنٹ کی ہی ہے۔ اس لیے کے حفیظ شیخ اور زرداری صاحب کے امیدوار دونوں انہیں کے ہیں۔ زرداری صاحب سے شراکت داری کئی سال سے جاری ہے۔ زرداری صاحب نے کافی کچھ دیا ہے تو اب کچھ نفع بھی ملنا چاہیے۔ زبیر عمر جو مریم نواز اور نواز شریف کے ترجمان ہیں انہوں نے بتایا اگر حفیظ شیخ ہار گئے تو اسد عمر وزیر خزانہ ہوں گے۔ اپنے تعلقات وہ پارٹی کے لیے ہی نہیں بھائی کے لیے بھی بخوبی استعمال کر رہے ہیں۔ یہ سب اقتدار کے مزے اڑائیں عوام کا تو کام ہی ان کی خدمت ہے۔
پی ڈی ایم کا اصرار ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اب غیرجانبدار ہو چکی ہے یعنی کسی ایک کی طرف جھکاؤ نہیں ہے بلکہ سب کو اپنی آغوش میں لیا ہوا ہے۔ یعنی سارے ہی ان کے لاڈلے ہونے چاہیے کوئی ایک زیادہ لاڈلا نہ ہو۔ انہیں اسٹیبلشمنٹ کے سیاست میں عمل دخل پر اعتراض نہیں ہے بلکہ اعتراض یہ ہے کہ ہمیں بھی لاڈلا بننے کا موقع دیں۔ میں آپ کو یہ بھی کئی دفعہ کہہ چکا ہوں اسٹیبلشمنٹ یعنی فوج، عدلیہ اور بیوروکریسی کی سیاست میں مداخلت سے یہ ملک عدم استحکام کا شکار ہے اس لیے انہیں نیوٹرل نہیں بلکہ سیاست سے لاتعلق ہونا چاہیے۔ ان کا کام عوام کے منتخب لوگوں کے ساتھ کام کرنا چاہیے ناکہ لاڈلا فیکٹریاں لگائیں۔
ڈسکہ کے معاملے پر الیکشن کمیشن نے جو اقدامات کئے اس پر ایک دفعہ پھر فافن اور پلڈاٹ بھنگڑے ڈال رہے ہیں تبدیلی آئی ہی آئی۔ ایک دفعہ پھر یہ دعوی ہو رہے ہیں کہ ایسی انہونی اس ملک کی تاریخ میں پہلے کبھی نہ ہوئی۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں اتنی مار پڑی ہے کہ سراب بھی پانی نظر آتا ہے۔ میں جاننا چاہتا ہوں الیکشن کمیشن نے ایسا کیا کام کیا ہے جس سے اس ملک میں صاف اور شفاف الیکشن ممکن ہو سکے۔ کیا صرف ایک ضمنی الیکشن جس میں کئی بے ضابطگیاں ہوئیں وہاں الیکشن دوبارہ کروانے سے انقلاب آنے والا ہے؟
عوام کا تاثر یہ ہے کہ موجودہ پارلیمان، سینیٹ اور سیاسی پارٹیاں سب ’سلیکٹڈ‘ ہیں۔ ان کا عوام سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ کئی سو ارب مافیاز کو دیتے ہیں تو کچھ ارب غریب کو خیرات میں بھی دے دیتے ہیں۔ تمام امیر لوگوں پر ٹیکس معاف ہے اور غریب آدمی ہر چیز پر ٹیکس بھرتا ہے۔ اور اسی ٹیکس میں سے پھر اسے خیرات دی جاتی ہے۔
یہ جمہوریہ نہیں چل سکتی۔ مجھے عوام چھریاں تیز کرتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔ میں کسی خونی انقلاب کا حامی نہیں ہوں اور نہ اس میں حصہ لوں گا۔ مگر میں آپ کو خبردار ضرور کر سکتا ہوں اور آپ کو حل بھی بتا چکا ہوں کہ قومی سیاسی مذاکرات سے ایک عوامی جمہوریہ قائم کریں۔ اگر آپ سب کی دلچسپی نہیں ہے تو تاریخ یہ ہی بتاتی ہے کہ آخری حل پھر مکمل تباہی ہی ہوتا ہے۔
نوٹ: یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے پر مبنی ہے ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔