پاکستان میں اس وقت ایوان بالا یعنی سینیٹ کے انتخابات میں کامیابی کے لیے امیدوار اور سیاسی پارٹیاں سرگرم ہیں۔
سینیٹ میں ووٹنگ کے طریقہ کار کے بارے میں جاننے کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے الیکشن کمشن آف پاکستان کے سابق سیکرٹری کنور دلشاد سے بات کی۔
ان کا کہنا تھا کہ آئین کے مطابق نمائندگی کے پیش نظر ہر صوبے کو 25، 25 سیٹیں دی گئیں تھی جس حساب سے ایوان بالا کی سو سیٹیں بنتی ہیں، اس کے ساتھ ساتھ سابقہ فاٹا کی چار سیٹیں تھیں مگر ان کے خیبر پختونخوا میں ضم ہونے کے بعد وہ چار سیٹیں ختم ہو گئی ہیں۔
کنور دلشاد نے کہا: ’اب موجودہ حالات میں سینیٹ کی سو سیٹیں ہیں سے جس میں ہر صوبے میں دو سیٹیں ٹیکنوکریٹس کی ہیں، دو خواتین کی اور سات جنرل ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ یہ فارمولا امریکہ اور کینیڈا سے دیکھ کر 1973 کے آئین میں بنایا گیا تھا، اس سے پہلے آئین میں سینیٹ کا تصور نہیں تھا اور واحدانی طرز حکومت تھی۔
انہوں نے بتایا کہ متناسب نمائندگی کی بنیاد پر یہ فارمولا اختیار کیا گیا ہے جس میں ہر تین سال بعد سینیٹ کی سیٹوں کا کوٹہ نکالا جاتا ہے۔ اس وقت ہر صوبے کی جنرل سیٹیں سات ہیں تو ہر صوبے میں صوبائی اسمبلی کے اراکین سات سے تقسیم ہوجاتے ہیں۔
اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے انہوں کہ کہ اگر ہم اس فارمولا کو خیبر پختونخوا میں دیکھیں تو اس کے حساب سے وہاں ہر 16 صوبائی اسمبلی کے رکن ایک سینیٹر منتخب کر سکتے ہیں۔ اسی طرح سندہ میں 22 یا 23 ایم پی اے ایک سینٹر چن سکتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا کہنا تھا کہ سب سے زیادہ تناست پنجاب کا ہے کیونکہ وہاں کے ایم پی اے زیادہ ہیں اور سب سےکم بلوچستان کا ہے جہاں آٹھ یا نو صوبائی اسمبلی کے اراکین ایک سینیٹر کو منتخب کر سکتے ہیں۔
ووٹنگ کے لیے دیے جانے والے بیلٹ پیپر کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ اس پر صرف امیدوار کا نام ہوتا ہے اور ووٹ دینے والے نے اس کے نام کے اگے درج نمبر پر نشان لگانا ہوتا جو اس کی ترجیح ہوتی ہے ۔
مثال کے طور پر اگر اس نے کسی امیدوار کو پہلی ترجیح دی ہے تو اس امیدوار کے سو نمبر ہوجاتے ہیں ، جب ووٹوں کی گنتی ہوگی تو ترجیح کے حساب سے نمبر ملیں گے ۔
کنور دلشاد کا کہنا تھا کہ اس کے برعکس قومی اسمبلی میں طریقہ کار الگ ہے جہاں جس امیدوار کو سب سے زیادہ ووٹ ملتے ہیں اور کامیاب قرار پاتا ہے۔