فروری کی دس تاریخ کو ایک سائیکل سوار ریو ڈی جنیرو کی خم دار سڑک پر چلا جا رہا ہے۔ ہوا میں ایک مانوس سے خوشبو رچی ہوئی ہے۔ یہ جیک فروٹ کی خوشبو ہے جو خطروں میں مدغم ہو چکی ہے۔
بغیر کسی تنبیہ کے جیک فروٹ کا ایک پھل تیجوکا نیشنل پارک کے بھاری درخت سے نیچے گرتا ہے، جو اس سائیکل سوار کے سر پر لگتا ہے اور اس کے ہیلمٹ کو توڑتے ہوئے اسے بے سدھ کر دیتا ہے۔ دنیا میں درخت پر پائے جانے والے اس پھل کے قریب سے گزرنے والوں کو زخمی کرنے کی کہانیوں کی تعداد ان گنت ہے۔
اب یہ محض ایک شہری قصہ نہیں تھا اور یہ اس جوڑے یعنی مریسا فرتادو اور پیڈرو لوباو کے لیے بھی ممکنہ خطرہ تھا، جس نے اس پھل کی ساکھ کو بحال کرنے کی جدوجہد شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔
برازیل کے جنوبی خطے میں موسم گرما کے دوران جیک فروٹ بڑی تعداد میں پایا جاتا ہے لیکن برازیلیوں کی اکثریت اسے کھانا پسند نہیں کرتی۔ تاریخی طور پر یہ غلاموں اور مفلوک الحال لوگوں کی خوراک رہا ہے۔ باربی کیو کے شوقین ملک برازیل میں پھل کو گوشت کا متبادل سمجھنا ایک دیوانے کا خواب ہی ہو سکتا ہے۔
جیک فروٹ کو برازیل میں ایک گھس بیٹھیا سمجھا جاتا ہے، گو کہ یہ کئی صدیاں پہلے یہاں لایا گیا تھا۔ ماہرین ماحولیات اسے اس لیے بھی ناپسند کرتے ہیں کہ اس نے برازیل کے اٹلانٹک فورسٹس کی 13 وفاقی یونٹس پر قبضہ کر رکھا ہے جن میں تیجوکا پارک بھی شامل ہے جو کہ دنیا کے سب سے بڑے شہری جنگلات میں سے ایک ہے۔
اور اب سائیکل سواروں نے مختلف فیس بک گروپس میں ان حادثوں کے بارے میں لکھنا شروع کر دیا ہے جس میں اس پھل نے ان پر حملہ کیا ہے۔ ایک صارف نے لکھا کہ وہ اس پھل کی وجہ سے پھسل کر گرے ہیں۔ کئی اور افراد نے بھی ملتے جلتے واقعات سنائے۔ کسی نے اس کے گرنے اور ٹوٹ کر بکھرنے کو پھٹنے سے تشبیہ دی تو کسی نے اس کی برسات میں سائیکل چلانے کا ذکر کیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لیکن یہ وہ جیک فروٹ نہیں ہے جسے فرتادو جانتی اور پسند کرتی ہیں۔ 57 سالہ فرتادو ہر روز جیک فروٹ کی سموتھی پیتی ہیں۔
وہ جیک فروٹ کی جنم بھومی بھارت کا سفر کرنے کا خواب بھی دیکھتی ہیں۔ 2020 میں ان کے کرسمس کارڈ پر انہیں ایک 73 پاؤنڈز کے بڑے جیک فروٹ کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے، جو 150 ڈشز بنانے کے لیے کافی ہے۔ اس کارڈ پر ایک پیغام درج ہے جس میں کہا گیا ہے: ’میری دعا ہے کہ تم سال 2021 میں خوب پھلو پھولو۔‘
فرتادو اور ان کے 54 سالہ بوائے فرینڈ جیک فروٹ کے کچے پھل کو درختوں سے اتارتے ہیں تاکہ انہیں فروخت کر سکیں۔ وہ بچ جانے والے پھلوں کو لوگوں میں مفت بانٹ دیتے ہیں اور ساتھ ہی اس سے کھانے بنانے کی تراکیب بھی بتاتے ہیں۔ وہ جیک فروٹ سے تیار ہونے والے کئی کھانوں کی تجویز دیتی ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ یہ بہت مزیدار اور صحت بخش ہیں۔
فرتادو کا کہنا ہے: ’تاریخ نے جیک فروٹ کے ساتھ تعصب پر مبنی رویہ رکھا ہے۔ آج ہم سنتے ہیں کہ جیک فروٹ سے بدبو آتی ہے۔ یہ پرتشدد پھل ہے، یہ گھس بیٹھیا ہے۔‘ ساتھ ہی ان کا کہنا تھا: ’ہاں یہ درست ہے کہ جیک فروٹ برازیل میں رچ بس گیا ہے۔ تو کیا ہمیں ان سب کو ختم کر دینا چاہیے جو یہاں آباد ہو گئے ہیں؟‘
ماحولیاتی تاریخ کی ماہر روجیرو اولیوریا کہتی ہیں: ’سترویں صدر میں پرتگالیوں نے جیک فروٹ کو برازیل منتقل کیا تھا، جہاں اس کو بہت سوالیہ نظروں سے دیکھا گیا، لیکن جلد ہی یہ ریوڈی جنیرو پہنچ گیا۔ ریوڈی جنیرو کے جنگلات میں اس وقت درخت کاٹے جا رہے تھے اور وہاں کافی اور گنے کی کاشت کی جا رہی تھی۔‘
اس وقت کے بادشاہ نے جنگلات کی بڑے پیمانے پر کٹائی کا حکم دیا تو جیک فروٹ اس انحطاط زدہ زمین پر خوب پھلا پھولا۔ اس درخت کی اونچائی 80 فٹ تک ہو سکتی ہے۔
اس پھل کا ذائقہ کیلے اور ناشپاتی سے ملتا جلتا ہے۔ بھارت میں کئی صدیوں سے جیک فروٹ کو گوشت کے متبادل کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ زرعی میگزین کے ایڈیٹر شری پادرے کے مطابق: ’بھارتی ریاست مغربی بنگال میں اسے ٹری گوٹ کہا جاتا ہے۔‘
کرونا کی وبا کے دوران تیجوکا پارک جانے والا راستہ ورزش کرنے والوں کے لیے ایک بہترین جگہ بن چکا ہے لیکن وہ یہاں گرنے والے جیک فروٹ کا ممکنہ نشانہ بھی بن سکتے ہیں۔ کچھ سائیکل سواروں نے حکام سے رابطہ کیا ہے کہ وہ سڑک کے اوپر موجود شاخوں کو کاٹ دیں تاکہ اس خطرے کو کم کیا جا سکے۔
فرتادو نے ان سائیکل سواروں سے بذریعہ فون بات کرنے کی کوشش کی ہے جن میں جیک فروٹ سے زخمی ہونے والا مذکورہ سائیکل سوار بھی شامل ہے۔ انہوں نے کوشش کی کہ وہ ان افراد کو اس پھل کے فوائد سے آگاہ کر سکیں جبکہ سڑک پر آگاہی بورڈز لگانے کے حوالے سے بھی بات کی۔ انہوں نے اس حوالے سے تیجوکا پارک کے کوآرڈینیٹر سے بھی بات کی اور انہیں اپنے موقف سے آگاہ کیا۔
فرتادو کہتی ہیں: ’یہ ایک تاریخی ورثہ ہے، جس کی قدر کرنا ضروری ہے۔ ایسا سماجی، معاشی، ثقافتی اور ماحولیاتی نقطہ نظر سے کرنا چاہیے۔ اس پھل کو ختم کرنا ایک بڑی غلطی ہوگی۔‘
لیکن کچھ افراد ان کی اس بات سے اتفاق نہیں کرتے۔ ٹروپیکل بائیولوجی کنورژن کے سربراہ امیلیو برونا کہتے ہیں: ’میں اس بات کے سو فیصد حق میں ہوں کہ اس پھل کو تیجوکا پارک سے باہر نکال دینا چاہیے۔ ہمیں اس کی ضرورت نہیں اور نہ ہی انسانی زندگی اس پر منحصر ہے۔‘
تیجوکا پارک کے لیے حکام کے ایک مجوزہ منصوبے میں کہا گیا ہے کہ اس پارک سے جیک فروٹ کا خاتمہ ایک ترجیح ہونی چاہیے۔