مسلم لیگ ن کی پارلیمانی سیاست میں ہونے والی اعلیٰ سطحی تبدیلیاں کسی این آر او کی وجہ سے نہیں بلکہ میاں نواز شریف کے بیانیے کو تقویت دینے کے لیے کی گئیں ہیں۔ اپوزیشن قیادت ملنے کے باوجود پارلیمان اور عوام میں اپنے دفاع اور حکومت مخالف موثر کردار ادا نہ کئے جانے پر شہباز شریف کی جگہ خواجہ آصف کو پارلیمانی رہنما جبکہ رانا تنویر کو چیئرمین پبلک اکاونٹس کمیٹی کا سربراہ بنانے کا فیصلہ میاں نوازشریف کی ہدایت پر کیا گیا۔
تاہم اتنے بڑے فیصلے اس وقت کیے گئے جب میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف پارٹی اجلاس میں موجود نہیں تھے۔
مسلم لیگ ن کی اہم سیاسی شخصیت نے نام نہ بتانے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اگلے چند روز میں مریم نواز کی جانب سے آئندہ کی سیاسی حکمت عملی سے متعلق پریس کانفرنس کا بھی امکان ہے جبکہ انہیں سیاسی طور پر بھرپور کردار ادا کرنے کا عندیہ دے دیا گیا ہے۔
مسلم لیگ ن کے پارلیمانی پارٹی اجلاس سے متعلق ملکی ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا پر چلنے والی خبروں میں بھی خواجہ سعد رفیق اور میاں جاوید لطیف نے پارٹی کی مصلحتی پالیسی پر کھل کر تنقید کی لیکن میاں نواز شریف کے بیانیے کی تعریف کی گئی۔
اسلام آباد میں ہونے والے اسی اجلاس میں میاں شہباز شریف کو پارلیمانی پارٹی کی سربراہی اور پبلک اکاونٹس کمیٹی کی سربراہی سے ہٹانے کا فیصلہ کیا گیا جس کی تصدیق مسلم لیگ ن کی سیکرٹری اطلاعات مریم اورنگزیب نے بھی کر دی۔ ذرائع کے مطابق مسلم لیگ ن کے قائد کی جانب سے کئے گئے فیصلوں کی اجلاس میں طے شدہ معاملے کے مطابق صرف توثیق کی گئی۔
مریم نواز کی انٹری
مریم نواز لندن سے واپسی جیل جانے اور رہا ہونے تک نہ صرف خود خاموش رہیں بلکہ ان کا ٹوئٹر اکاونٹ بھی خاموش رہا۔ وہ صرف کبھی کبھار اپنے والد میاں نواز شریف کی صحت سے متعلق ہی ٹویٹ کرنے تک محدود رہیں۔ والد کے ساتھ ہسپتال آنا ہو یا ان سے ملاقات کے لیے جیل جانا ہو، جب بھی میڈیا کا سامنا ہوا انہوں نے ہمیشہ سیاسی گفتگو سے اجتناب کیا لیکن جیسے ہی میاں شہباز شریف کو ہٹا کر اہم عہدوں پر نئی تقرریاں ہوئیں اس کے چند گھنٹے بعد ہی مریم نواز نے واضح موقف پر مبنی بھر پور سیاسی ٹویٹ کیں، جس میں انہوں نے اپنے والد کے بیانیے کی پاسداری کی۔
مریم نواز نے ٹویٹ میں کہا: ’نوازشریف کے لیے یہ مشکلات یہ پریشانیاں کوئی نئی نہیں ہیں، مسلم لیگ ن کے شیرو بس مایوس نہیں ہونا اپنے لیڈر کی طاقت بن کے اس کے ساتھ کھڑے رہنا ہے، تاریخ گواہ ہے آپ کا لیڈر اپنے ملک کے لیے جو قدم اٹھا لے پیچھے مُڑ کر نہیں دیکھتا بس اپنے قائد پہ بھروسہ رکھیں اور افواہوں پر کان نہ دھریں۔‘
انہوں نے پارٹی میں اعلیٰ سطحی تبدیلیوں کے چند گھنٹے بعد یکے بعد دیگرے چار سیاسی ٹویٹ کیں، جن سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ مسلم لیگ ن کے قائد کا بیانیہ لے کر پھر سے سیاسی میدان میں اترنے کے لیے تیار ہیں۔
مسلم لیگ ن کے ذرائع نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ سپریم کورٹ میں میاں نواز شریف کے بیرون ملک علاج کی درخواست بھی ان کی مرضی کے خلاف دی گئی جس پر انہوں نے برہمی کا اظہار بھی کیا اور انھوں نے پارلیمنٹ میں مسلم لیگ ن کی جانب سے حکومتی پالیسیوں، مہنگائی، معیشت و دیگر ایشوز پر خلاف حوصلہ افزا مزاحمت نہ ہونے پر بھی ناخوشی کا ظہار کیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پارٹی تنظیم نو کی حکمت عملی
مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کے مطابق پنجاب میں بھی حمزہ شہباز کی بطور چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نامزدگی مشکوک ہو گئی ہے۔ تاہم کسی متبادل نام کا فیصلہ نہیں ہوا جبکہ تنظیم نو میں بھی پارٹی عہدوں پر میاں نوازشریف کے بیانیے کے حامی رہنماؤں کو ہی اہم عہدے سونپے جائیں گے۔
اس کے علاوہ مسلم لیگ ن کی قیادت نے بھرپور اپوزیشن کے لیے جارحانہ موقف اپنانے والے رہنماؤں کی فہرست بھی تیار کی ہے۔
صحافی نوید چودھری نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ مسلم لیگ ن کی قیادت انتخابی دھاندلیوں، نیب کی کارروائیوں اور حکومت کی ناکام پالیسیوں کے خلاف بھرپور اپوزیشن کا کردار ادا کرنا چاہتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حالیہ تبدیلیوں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف کی مصلحتی پالیسی کو میاں نواز شریف نے ناکام سمجھتے ہوئے اپنے بیانیے کو پارٹی بیانیے میں تبدیل کرنے کی حکمت عملی تیار کی ہے۔
انھوں نے بتایا کہ لیگی قیادت پیپلز پارٹی اور مولانا فضل الرحمن کے ساتھ مل کر متحدہ اپوزیشن کا موثر کردار چاہتی ہے اس لیے آئندہ کے لیے متبادل ٹیم کی نامزدگیاں کی جارہی ہیں۔ مسلم لیگ ن کو میاں نواز نواز شریف کے بیانیے سے پیچھے ہٹنے اور خاموشی اختیار کرنے پر سیاسی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا، حتیٰ کہ این آر او کی باز گشت بھی سنائی دی جس سے سابق حکمران جماعت کو سیاسی طور پر نقصان ہوا۔