ہفتے کو جب وزیر اعظم عمران خان نے قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لیا تو صبح سے ہی اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر جمع پاکستان تحریک انصاف کے کارکن مشتعل نظر آ رہے تھے۔
آج صبح تقریباً 11 بجے جب راقم ڈی چوک پہنچا تو وہاں تحریک انصاف کے کارکن موجود تھے جبکہ کانسٹیٹیوشن ایونیو کو جانے والا راستہ بند تھا، جس پر ہم سرینا چوک کے راستے پارلیمنٹ ہاؤس کی طرف بڑھ گئے۔
کانسٹیٹیوشن ایونیو کے دونوں اطراف ٹی وی چینلز کی ڈی ایس این جی وینز کھڑی تھیں جبکہ صحافیوں کی بڑی تعداد پارلیمنٹ ہاؤس کے بالکل سامنے سڑک سے اونچی گرین بیلٹس پر موجود تھی۔
ہمارے پہنچنے کے کچھ دیربعد ڈی چوک کے بند راستے کی جانب سے تیس چالیس افراد اس مقام کی طرف آئے جہاں ٹی وی چینلز کے نمائندے اور دوسرے صحافی موجود تھے۔ انہوں نے نعرہ تکبیر اور نعرہ رسالت کے بعد تحریک انصاف اور وزیر اعظم عمران خان کے حق میں نعرے بازی کی۔
پی ٹی آئی کے کارکن میڈیا کو ڈی چوک کے پہلے ٹریفک سگنل کی طرف آنے کا کہہ رہے تھے جہاں وہ صبح سے عمران خان کے حق میں جمع تھے۔
میڈیا کی توجہ حاصل کرنے میں ناکامی پر ان میں سے ایک شخص نے اونچی آواز میں وزیراعظم عمران خان کے حق میں بولتے ہوئے میڈیا کو ان کے مظاہرے کی کوریج کرنے کا کہا لیکن اس سے بھی صحافی ٹس سے مس نہ ہوئے، جس کے بعد انہوں نے میڈیا پر لعن طعن شروع کر دی۔
اس سے بھی کام نہیں بنا تو آخر کار یہ لوگ عمران خان کے حق میں اور میڈیا کے خلاف نعرے لگاتے ہوئے واپس چلے گئے۔ اس موقعے پر وہاں موجود ایک ٹی وی چینل کے اہلکار نے کہا: ’ہمارے کیمرے اور ڈی ایس این جیز یہاں موجود ہیں، ڈی چوک کے اس سرے تک جانا ہمارے لیے ممکن ہی نہیں۔‘
اس واقعے کے تقریباً دو گھنٹے بعد پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما، جن میں سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی، احسن اقبال، مریم اورنگزیب اور مصدق ملک وغیرہ شامل تھے چند پارٹی ورکرز کے ہمراہ قریبی پارلیمینٹ لاجز سے باہر آئے اور میڈیا نمائندوں کے درمیان آکر پریس کانفرنس سے خطاب شروع کر دیا۔
ن لیگ کے رہنماؤں کی میڈیا سے گفتگو کو ابھی کچھ دیر ہی گزری تھی کہ ڈی چوک کے پہلے سگنل کی طرف سے تحریک انصاف کے کارکن آئے اور آتے ہی وزیر اعظم عمران خان کے حق میں نعرے بازی شروع کر دی، جس کا جواب مسلم لیگ ن کے ورکرز نے بھی دیا۔
یہی وہ وقت تھا جب دونوں جماعتوں کے کارکنوں کے درمیان ہاتھا پائی ہوئی جو اس حد تک بڑھ گئی کہ کچھ لوگوں نے ن لیگ کے رہنماؤں کو دھکے دیے حتیٰ کہ سابق وفاقی وزیر احسن اقبال کو جوتا مارا گیا جبکہ ایک شخص نے ن لیگ پنجاب کی ترجمان مریم اورنگزیب کو لات ماری۔
اس وقت ڈی چوک کا وہ سبزہ زار ایک عجیب منظر پیش کر رہا تھا جب تحریک انصاف اور ن لیگ کے کارکنوں کے درمیان دھینگا مشتی جاری تھی، جو تقریباً آدھے گھنٹے تک رہی۔
سینیٹر مصدق ملک کو مریم اورنگزیب پر حملہ کرنے والے شخص کے پیچھے بھاگ کر اسے پکڑنے کی کوشش کرتے دیکھا گیا جبکہ شاہد خاقان عباسی کو پی ٹی آئی کارکنوں کو آمنے سامنے مقابلے کا چیلنج دیتے ہوئے سنا گیا۔
آخر کار پولیس نے ن لیگ کے رہنماؤں کو انسانی ہاتھوں کی زنجیر بنا کر واپس پارلیمنٹ لاجز تک بحفاظت پہنچایا، جس کے بعد دونوں جماعتوں کے ورکرز کے درمیان آنکھ مچولی کا سلسلہ شروع ہو گیا، جس میں ن لیگ کے کارکن پارلیمنٹ لاجز سے باہر آتے، تحریک انصاف والے ان کے پیچھے جاتے اور پولیس اور سکیورٹی اہلکار اوالاذکر کو واپس اندر دھکیل دیتے۔
تحریک انصاف کی ایک خاتون کارکن نے اس صورت حال کو کچھ اس طرح بیان کیا: ’ایسا لگ رہا ہے جیسے ہم سیاسی جماعتوں کے کارکن نہیں بلکہ دو دشمن فوجوں کے سپاہی ہیں جو اس طرح ایک دوسرے پر حملہ آور ہو رہے ہیں۔‘
ان تمام واقعات کی کوریج کرنے والے ایک صحافی کے خیال میں تحریک انصاف کے ورکرز تو صبح سے مشتعل تھے لیکن ن لیگ کے رہنماؤں کو اس موقعے پر یہاں نہیں آنا چاہیے تھا۔ بعد ازاں ن لیگ کے رہنماؤں نے میڈیا کو پارلیمنٹ لاجز بلا کر پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔
تحریک انصاف کا جشن
جب باہر ڈی چوک پر یہ سب کچھ ہو رہا تھا تو پارلیمنٹ ہاؤس کے اندر قومی اسمبلی کے ارکان وزیر اعظم عمران خان پر اعتماد کے اظہار کی قرارداد پر ووٹ دے رہے تھے۔
قرارداد کے حق میں 178 ارکان نے ووٹ دیے اور اس خبر کے باہر پہنچتے ہی تحریک انصاف کے مشتعل کارکن خوشی سے سرشار ہو گئے اور ان کے نعروں میں غم و غصے کی بجائے فتح و کامرانی کے جذبات صاف محسوس ہونے لگے۔
اس وقت تک تحریک انصاف کے کارکنوں کی بہت بڑی تعداد ڈی چوک کی رکاوٹیں ہٹا کر پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے پہنچ چکی تھی، جہاں انہوں نے گاڑیوں کی چھتوں پر چڑھ کر نعرے بازی کی اور سپیکرز اور ایمپلیفائرز کے ذریعے اپنی جماعت کے ترانے بھی لگائے۔
پارلیمنٹ ہاؤس کے مرکزی دروازے کے عین سامنے سٹیج سجایا گیا جہاں قومی اسمبلی کی کارروائی کے خاتمے پر کئی وفاقی وزرا نے آکر کارکنوں سے خطاب کیا اور عوام کو عمران خان کے حق اعتماد کے ووٹ کی منظوری پر مبارک باد دی۔
اعتماد کا ووٹ
وزیر اعظم عمران خان ساڑھے 11 بجے پارلیمنٹ ہاؤس پہنچے جبکہ قومی اسمبلی کا اجلاس ٹھیک 12:15 پر شروع ہوا۔ حکومتی ارکان کے علاوہ اجلاس میں جماعت اسلامی کے مولانا عبدالاکبر چترالی اور پی ٹی ایم کے محسن داوڑ نے بھی شرکت کی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
میڈیا کے دریافت کرنے پر مولانا چترالی نے کہا: ’میں تحریک انصاف حکومت اور عدم اعتماد کی قرارداد کے خلاف بات کرنے اسمبلی آیا ہوں۔‘
پاکستان مسلم لیگ ن کے رانا تنویرنے، جو اسمبلی کا اجلاس شروع ہونے سے کچھ دیر پہلے پارلیمنٹ ہاؤس پہنچے تھے، کہا: ’اب اعتماد کا ووٹ اس حکومت کو نہیں بچا سکتا اور قوم جلد ہی خوش خبری سنے گی۔‘
وزیر اعظم عمران خان پر اعتماد کے اظہار سے متعلق قرارداد وفاقی وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے پیش کی جسے تحریک انصاف اور اس کی اتحادی جماعتوں کے 178 اراکین نے حمایت کر کے کامیاب بنایا۔
اجلاس کے بعد تحریک انصاف کے ایم این اے احمد نواز اعوان نے کہا کہ عمران خان ایک نڈر لیڈر ہیں جو انہوں نے اعتماد کا ووٹ حاصل کر کے ثابت کر دیا۔
محسن داوڑ کا کہنا تھا کہ وہ دیکھنے آئے ہیں کہ ایوان میں تحریک انصاف کے کتنے ارکان قرارداد کے حق میں ووٹ ڈالتے ہیں۔ ’ویسے اس اعتماد کے ووٹ کی کوئی اہمیت اور حیثیت ہے نہیں۔‘
تاہم بعد میں انہوں نے ایک نیا پنڈورا باکس کھول دیا کہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں موجود تحریک انصاف اور اس کی اتحادی جماعتوں کے ارکان کی تعداد اتنی نہیں تھی جتنی بتائی جا رہی ہے۔