الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے کہا ہے کہ پارلیمان کے ایوان بالا کے انتخابات کے بعد وزیر اعظم اور وفاقی وزرا کے بیانات سن کر دکھ ہوا اور کسی کی خوشنودی کی خاطر آئین و قانون کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
جمعے کو اجلاس کے بعد جاری کیے گئے ایک اعلامیے میں الیکشن کمیشن نے کہا کہ کمیشن میں فیصلے بغیر کسی دباؤ کے ہوتے ہیں تاکہ پاکستانی عوام میں جمہوریت کو فروغ ملے۔
الیکشن کمیشن نے مزید کہا کہ سینیٹ کے انتخابات آئین اور قانون کے مطابق کروائے گئے اور نتائج کے بعد میڈیا کی وساطت سے جو خیالات ہمارے مشاہدے میں آئے ان کو سن کر دکھ ہوا، خصوصی طور پر وفاقی کابینہ کے چند ارکان اور خصوصاً وزیر اعظم عمران خان نے جو کچھ اپنے جمعرات کے خطاب میں کہا تھا۔
اعلامیے میں کہا گیا کہ الیکشن کمیشن کے احکامات یا فیصلوں پر اعتراض کی صورت میں آئینی راستہ اختیار کیا جانا چاہیے اور کمیشن کو آزادی سے کام کرنے دیا جائے۔ ’ہم کسی بھی دباؤ میں نہ آئے ہیں اور نہ ہی انشااللہ آئیں گے۔‘
ادارے کا کہنا تھا کہ وہ سب کی سنتا ہے مگر صرف آئین کی روشنی میں اپنے فرائض انجام دیتا ہے۔ ’اگر اسی طرح آئینی اداروں کی تضحیک کی جاتی رہی تو یہ ان کی کمزوری کے مترادف ہے نہ کہ الیکشن کمیشن کی۔‘
الیکشن کمیشن کے اس علامیے پر ردعمل دینے کے لیے وفاقی وزیر شبلی فراز اور فواد چبہدری نے اسلام آباد میں مشترکہ پریس کانفرنس کی ہے جس میں دونوں وزرا نے الیکشن کمیشن کے اس بیان پر اسے تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
وفاقی وزیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے اس موقع پر کہا کہ ’عمران خان کے بیان پر الیکشن کمیشن کو ناراض ہونے کی بجائے شرمندہ ہونا چاہیے۔‘
انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن محترم ہے اور محترم ہی رہے گا۔ تاہم ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کی پریس ریلیز غیر مناسب ہے، اس پر تنقید ہوگی۔
فواد چبہدری کا مزید کہنا چھا کہ الیکشن کمیشن کو دکھی روح بننے کی ضرورت نہیں ہے۔ ’عمران خان نے ہمیشہ کہا کہ انتخابات میں ادارے غیرجانبدار ہوں۔‘
الیکشن کمیشن کے اعلامیے میں کہا گیا: ’یہ حیران کن بات ہے کہ ایک ہی روز ایک ہی چھت کے نیچے ایک ہی الیکٹورل میں ایک ہی عملہ کی موجودگی میں جو ہار گئے وہ نامنظور جو جیت گئے وہ منظور، کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟ جبکہ باقی تمام صوبوں کے رزلٹ قبول۔ جس رزلٹ پر تبصرہ اور ناراضگی کا اظہار کیا گیا ہے الیکشن کمیشن اس کو مسترد کرتا ہے۔‘
اعلامیے کے مطابق: ’وضاحت کی جاتی ہے کہ الیکشن کمیشن ایک آئینی اور آزاد ادارہ ہے۔ اس کو وہی دیکھنا ہے کہ آئین اور قانون اس کو کیا اجازت دیتا ہے اور وہی اس کا ’معیا ر‘ ہے۔ ہم کسی کی خوشنودی کی خاطر آئین اور قانون کو نظر انداز کر سکتے ہیں اور نہ ہی ترمیم کر سکتے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ ہر شخص اور سیاسی جماعت میں اپنی ہار تسلیم کرنے کا جذبہ ہونا چاہیے، اور اگر اختلاف ہے تو ثبوت کے ساتھ آکر بات کرنی چاہیے۔ بیان میں مزید کہا گیا: ’ہمیں کام کرنے، قومی اداروں پر کیچڑ نہ اچھالیں۔‘
وزیر اعظم عمران خان نے جمعرات کو قوم سے خطاب میں الیکشن کمیشن کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ سینیٹ انتخابات خفیہ بیلٹ کے ذریعے کروا کر الیکشن کمیشن نے جمہوریت کو نقصان پہنچایا۔ انہوں نے سوال کیا تھا: ’یہ کون سی جمہوریت ہے جہاں پیسے دے کر کوئی بھی سینیٹر بن جاتا ہے؟‘
وزیراعظم عمران خان کہا تھا: ’صاف اور شفاف انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری تھی، مجھے یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ میں کیوں کہا کہ خفیہ بلیٹ ہونا چاہیے، کوئی آئین اجازت دیتا ہے رشوت دینے کی؟ کوئی آئین اجازت دیتا ہے چوری کرنے کی؟‘
انہوں نے الیکشن کمیشن کو مخاطب کر کے کہا تھا کہ ’سپریم کورٹ نے آپ کو موقع دیا اور کہا کہ الیکشن خفیہ کروا لیں لیکن بیلٹ پیپر کی شناخت کے طریقہ کار کو خفیہ رکھیں۔‘
عمران خان نے کہا کہ سارے ملک کے سامنے پیسہ چل رہا ہے، پیسے کی ویڈیو بھی چل رہی ہے، اس سے پہلے 2018 کے سینیٹ انتخابات میں پیسے لینے کی ویڈیو بھی سامنے آچکی ہے۔
انہوں نے الیکشن کمیشن کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا: ’کیا آپ کو علم نہیں کہ اس کی تحقیقات کرنا آپ کی ذمہ داری تھی؟ ساری ایجنسیاں آپ کے ماتحت ہیں، جب ملک کی قیادت رشوت لے اور رشوت دے گی تو آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ پٹواری اور تھانیدار ٹھیک ہو جائے گا۔‘
وزیراعظم نے الیکشن کمیشن کو مخاطب کرتے ہوئے مزید کہا کہ سپریم کورٹ نے ’جب آپ کو موقع بھی دیا تو کیا وجہ تھی کہ آپ 1500 بیلٹ پیپرز پر کوئی بار کوڈ نہ لگا سکے۔‘
وزیر اعظم عمران خان نے الزام لگایا کہ الیکشن کمیشن نے ملک کی جمہوریت کو بے توقیر کرنے کا موقع دیا۔
ان کا کہنا تھا: ’آپ نے ملک کی اخلاقیات کو نقصان پہنچایا ہے، آپ کو اندازہ ہی نہیں کہ سینیٹ الیکشن میں کتنا پیسہ چلا ہے، جو شخص کروڑوں روپے خرچ کر کے سینیٹر بنے گا وہ ملک کی کیا خدمت کرے گا؟ وہ یہ لگایا گیا پیسہ کہاں سے وصول کرے گا؟‘