پبلک ٹرانسپورٹ میں خواتین کے پرس سے چوری کرنے اور ڈکیتی کی وارداتوں میں ملوث خواتین گروہ کی سرغنہ کو بالآخر 11 سال بعد خیبر پختونخوا کے ضلع نوشہرہ سے گرفتار کرلیا گیا۔
پیر (آٹھ مارچ) کو گرفتار کی گئی خاتون کو اقبال جرم کے بعد اسی دن مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا، جس کے بعد انہیں مردان میں خواتین کی جیل میں منتقل کر دیا گیا۔
تھانہ نوشہرہ کلاں کے ایس ایچ او جاوید اختر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اشتہاری ملزمہ نسرین کے خلاف 2010 میں اس وقت ایف آئی آر درج ہوئی تھی، جب انہوں نے ایک خاتون سے زبردستی سونے کا ہار چھینا تھا۔ اس کے بعد سے وہ مفرور تھیں جبکہ ان کے گروہ کی پانچ خواتین میں سے ایک کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔
نسرین کی گرفتاری کے بعد گروہ کی دیگر تین خواتین تاحال پولیس کو مطلوب ہیں۔
ایس او جاوید اختر کے مطابق: پولیس کو پہلے سے اطلاع موصول ہوچکی تھی کہ اشتہاری ملزمہ نوشہرہ میں ایک پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کر رہی ہیں، جس کے بعد ہم نے تمام راستوں کی ناکہ بندی کی اور ملزمہ کو گرفتار کر لیا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ یہ خواتین عام ویگنوں میں دوران سفر دیگر خواتین سے چوریاں کرتی تھیں، جب کہ بعض اوقات ان کے ساتھ ہی اتر کر سنسان جگہوں پر ان سے زبردستی پیسے اور زیورات بھی چھینا کرتی تھیں۔
ملزمہ کے خلاف ایف آئی آر درج کروانے والے مدعی شمشاد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 11 سال قبل ان کی بیوی ضلع مردان میں اپنے رشتہ داروں کے گھر سے واپس نوشہرہ آنے کے لیے گاڑی کا انتظار کر رہی تھیں کہ ان کے سامنے ایک مسافر فلائنگ کوچ رکی، جس میں پہلے سے چند خواتین بیٹھی ہوئی تھیں۔
خواتین کو دیکھ کر میری بیوی اطمینان سے گاڑی میں بیٹھ گئیں، تاہم جیسے ہی گاڑی کچھ آگے بڑھی تو کوچ میں پہلے سے بیٹھی ملزمہ نسرین اور ان کے گروہ نے انہیں دبوچ کر ان کے گلے سے ڈھائی تولے سونے کا ہار چھین کر میری بیوی کو گاڑی سے باہر پھینک دیا۔
شمشاد نے بتایا کہ آج بھی نوشہرہ کے مختلف علاقوں میں ایسی خواتین کے مختلف گروہ سرگرم عمل ہیں، جو خانہ بدوشوں کے بھیس میں گھر گھر کبھی سامان ضرورت بیچتی ہیں تو کبھی بھیک مانگتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ خواتین گروپ کی شکل میں وارداتیں کرتی ہیں، جس کی وجہ سے علاقہ مکینوں میں خوف کی فضا پھیل گئی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس کیس کی تفتیش کرنے والے پولیس افسر محمد کاشف نے بتایا کہ ملزمہ نسرین جن کی عمر تقریباً 40 سال ہے، دراصل خانہ بدوشوں کی ایک بستی سے تعلق رکھتی ہیں اور کبھی ایک تو کبھی دوسرے علاقے میں کوچ کرتی رہتی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ گذشتہ کچھ عرصے سے یہ گروہ نوشہرہ میں مقیم ہے، جہاں مختلف کاروباروں کی آڑ میں اس گروہ کی خواتین چوری اور ڈکیتی کی وارداتوں میں ملوث تھیں۔
دوسری جانب ایس ایچ او جاوید اختر نے بتایا کہ 2010 میں نسرین کے خلاف حدود آرڈیننس کی دفعہ 14 اور پاکستان پینل کوڈ کے دفعہ 379 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا اور ان کے اقبال جرم اور ان سے 50 ہزار روپے کیش برآمد ہونے کے بعد پولیس نے ملزمہ کے خلاف مقدمے میں دفعہ 411 بھی درج کرلی ہے۔
پشاور ہائی کورٹ کے وکیل مطیع اللہ مروت نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ قانون کی دفعہ 379 ایک ناقابل ضمانت جرم ہے، جس کی کم سے کم سزا پانچ سال اور زیادہ سے زیادہ عمرقید ہے۔ جب کہ دفعہ 411 کا نفاذ اس وقت ہوتا ہے جب ملزم سے چوری شدہ سامان کی برآمدگی ہو اور اس کی سزا تین سال قید ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ جب کسی پر حدود آرڈیننس کی دفعہ 14 لاگو ہوتی ہے تو اس کی سزا کے طور پر مجرم کا دایاں ہاتھ کاٹا جاتا ہے، تاہم انہوں نے کہا کہ اس کے لیے سیکشن سات کا عملی ہونا لازمی ہے۔
مطیع اللہ مروت کے مطابق: ”پاکستان حدود آرڈیننس کی دفعہ 14 کی سیکشن سات کا تقاضا یہ ہے کہ ملزم اقبال جرم کرے یا دو بالغ مسلمان، جو جرم کے عینی شاہدین ہوں، اس کے خلاف گواہی دیں۔ تاہم دونوں صورتوں میں عدالت کا بیانات سے مطمئن ہونا ضروری ہے۔“