گرمیوں کی چھٹیوں کا ہوم ورک یاد ہے آپ کو؟ کیسی موت پڑی ہوتی تھی، تین مہینے عیاشی کر کے آخری چار دنوں میں سارا کام پورا کرتے تھے کہ نہیں؟
تھوڑا کام ابو امی سے کروایا، کوئی بہن بھائیوں میں بانٹا، کسی کے لیے اور کہیں ترلے کیے، گندی ترین ہینڈرائٹنگ میں وہ سارا ہوم ورک جلدی جلدی نبیڑ کے جمع کروا دیا جاتا تھا۔ چھٹیوں میں ساتھ ساتھ ہم لوگ روزانہ آخر وہ کام مکمل کیوں نہیں کیا کرتے تھے؟ سارے مضامین کا ایک ایک صفحہ روز مکاتے تو ہو جاتا نوے دن میں ۔۔۔ ایسا کیوں نہیں ہوتا تھا؟
ابھی کرونا کی چھٹیاں کوئی سال بھر کھینچ گئیں۔ جو مجھ جیسے تھے انہوں نے ورک فرام ہوم کے مزے لیے۔ سوال یہ ہے کیا اکھاڑ لیا؟ ہر بندہ کہتا تھا کہ یار زندگی میں کبھی فرصت ہوئی تو یہ کریں گے، وہ کریں گے، کون سا کام پورا کیا؟ کپڑوں کی الماری تک تو ایک سال میں اور زیادہ اجڑ گئی ۔۔۔ کیا تھا جو پورا ہوا؟
فرصت اپنے ساتھ ہڈ حرامی لاتی ہے اور یہ اب تک آپ بھی محسوس کر چکے ہوں گے۔ کیا کیا پلان بناتے تھے، روزانہ جم جائیں گے، اتنی واک ہو گی، اتنی رننگ کرنی ہے زندگی میں، جوگنگ تو بس اس ہفتے پکی ہے، ہوا کیا؟ الٹا وزن پانچ چھ کلو بڑھ گیا۔
فرصت کے انتظار میں ہماری نسل نے اپنی آدھی سے زیادہ عمر گزار دی اور جب مل گئی تو ایسے لٹ ہوئے کہ پہلے سے چلتے کام بھی چھٹ گئے۔ پچھلے پورے ایک سال کے دوران مجھے بتا دیں اگر سونے کے علاوہ کوئی ضروری کام نمٹایا ہو آپ نے؟
اس لاک ڈاؤن کے بعد حاصل وصول یہ نکلتا ہے کہ فرصت میں کچھ نہیں ہو سکتا، کام جو بھی ہونے ہیں مصروفیت کے ساتھ ساتھ پورے ہوں گے۔ جو کام ہم اس لیے چھوڑ دیتے ہیں کہ انہیں کبھی چھٹی کے دن دیکھیں گے تو وہ بس پھر ہمیں دیکھتے رہ جاتے ہیں۔
زندگی بڑی تیزی سے سرکتی ہے۔ میں جب چھوٹا تھا تو سوچتا تھا کہ لوگ بال کیسے بڑے کرتے ہیں، اتنی لمبی داڑھی کیسے چھوڑ دیتے ہیں۔ تھوڑا بڑا ہوا تو بال بڑھانے کے لیے بڑی کوشش کی۔ جو اس تجربے سے گزرے ہیں وہ جانتے ہوں گے کہ تین ایک ماہ بعد ایسی سٹیج آتی ہے کہ بندہ کوئی سٹائل نہیں بنا سکتا، بال بھی ٹیڑھے میڑھے ہونے لگتے ہیں۔
تو بس دو چار ماہ صبر کر کےنائی کی طرف بھاگنا پڑتا ہے کہ چلو ہلکا سا ہاتھ لگوا لیں۔ نائی دوبارہ اپنے ارمان پورے کر کے واپس بھیج دیتا تھا۔ تو میں سوچتا تھا کہ یار کچھ ایسا ہو کہ ایک دن سوؤں اور اگلے دن بال فل بڑھے ہوں، یا جیسے فلموں میں دکھاتے ہیں کہ ہیرو حادثے میں بے ہوش ہوا اور تین ماہ بعد اٹھا تو ایسا لگتا تھا جیسے غار کے زمانے کا آدمی ہے۔ دل چاہتا تھا کہ (استغفرللہ) کچھ ایسا ہی ہو جائے یار، ناک نقشہ تو بدلے گا۔ پھر وقت کے ساتھ صبر آ گیا۔ بڑھ ہی گئے بال بھی۔ لیکن کیسے؟ کوئی چھٹی بھی کام سے نہیں کی، فلمی سین بھی کوئی نہیں ہوا، بس وہی کہ ایک کام کرنا تھا، روزانہ کی بنیاد پر ہوا، ہو گیا بالاخر۔
تو کاموں کا یہ ہے کہ ایسے ہی ہوں گے چلتے پھرتے۔ لیٹ گئے تو چھٹی ہے۔ پودوں کا شوق ہے، کسی پہاڑی مقام پر جانا ہے، گاڑی کو نیا کروانا ہے، میڈیکل چیک اپ ہے، کپڑے لینے ہیں، گھر کا سودا خریدنا ہے، گوشت لانا ہے، ناول لکھنا ہے، فلم بنانی ہے، بزنس کرنا ہے، گانا سیکھنا ہے ۔۔۔ یو نیم اٹ! جو بھی کرنا ہے ایسے ہی ہو گا، اسی مصروفیت کے ساتھ ہو گا اور انہی سب منحوس کاموں کے بیچ میں ان کی جگہ نکالنی پڑے گی۔
پچھلا سارا سال جس قدر فرصت تھی شاید آنے والے دو سو برس کسی اور نسل کو نہ مل سکے۔ میرے آس پاس کوئی انسان بھی اس میں ٹکے برابر کری ایٹو کام نہیں کر سکا، میں نے تو خیر حسب عادت نہیں کیا۔ ہزار میں سے شاید کوئی ایک ہو جس نے ان چھٹیوں میں وہ کیا جسے کرنے کا اس نے ساری زندگی پلان بنایا تھا۔ باقی نو سو ننانوے ایک پاجامے اور قمیص میں پورا سال نکال گئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
خاص کاموں کا تو چھوڑیں عام چیزوں میں بھی یہی معاملہ ہے۔ سارا ہفتہ ہم لوگ چھوٹے چھوٹے کاموں کو چھٹی کے دن کی طرف گھسیٹتے رہتے ہیں۔ جس دن چھٹی ہوتی ہے اس دن اتنے سارے کام اکٹھے ہوتے ہیں کہ یا تو دل ہی نہیں چاہتا بستر سے نکلنے کو اور یا نکل گئے تو شدید تھکن کے ساتھ واپسی ہوتی ہے۔ اس کا حل قسم سے یہی ہے کہ کل کا کام آج نہ کریں اور آج کا کام چھٹی پہ نہ چھوڑیں، جس دن جو مصیبت گلے پڑی ہے کوشش کریں اسی دن بھگتائیں اور اگلے دن نئی فٹیگ کے لیے تیار رہیں۔ بے شک زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں!
مارک ٹوئن کا ایک قول مشہور ہے کہ اگر آپ کے ذمے اگلے دن ایک مینڈک کھانا ہے تو بہتر ہے اسے صبح سویرے کھا لیں۔ اگر دو مینڈک کھانے ہیں تو بڑا والا سب سے پہلے پھڑکا لیں۔ دیکھیں ضروری کام ہر سیانے آدمی کو فٹیگ لگتے ہیں، اسے بھی لگتے تھے، اسی لیے اس نے مینڈک کھانے جیسے لفظ استعمال کیا۔ شاعر کہنا بس یہی چاہتا تھا کہ جو بھی موت پڑی ہوئی ہے اس سے جلد از جلد جان چھڑائیں اور اگر دو مشکل کام ذمے لگے ہوئے ہیں تو پہلے زیادہ مشکل والا کر لیں اور علی الصبح ہی کر ڈالیں۔ ویسے میں ذاتی طور پہ چھوٹا مینڈک پہلے کھانا پسند کرتا ہوں۔ ایک لطیف سا احساس ہوتا ہے کہ چلو ایک ہو گیا، بس اب یہ دوسرا معاملہ نمٹائیں گے اور جان چھوٹی!
آخری اور سب سے ضروری بات یہ ہے کہ جو کام آپ چاہتے ہیں کہ کبھی فرصت میں کریں، کیا آپ وہ کام واقعی میں کرنا بھی چاہتے ہیں؟ یہ حساب لگانا بہت ضروری ہے۔ آدھا گھنٹہ نکالیں، وہ حسرتیں کاغذ پہ لکھیں کہ جن پر دم نکلتا ہے، آدھی سے زیادہ آپ خود ہی کاٹ دیں گے کہ یار یہ کیا بکواس ہے۔ باقی جتنی رہ جائیں ان کا تعویذ بنا کے گلے میں ڈال لیں۔ ایسے چلتے رہے تو انہیں پورا کرنے کا وقت کبھی نہیں ملے گا، ساتھ لے جائیں گے تعویذ خیر سے!
نعرہ ماریں شابا، جو کریں گے؟ آج کریں گے!
بسم اللہ تے اللہ وارث۔