سینیٹ کے نئے چیئرمین منتخب ہونے والے محمد صادق سنجرانی کا تعلق بلوچستان کے ایرانی سرحد سے متصل علاقے ضلع چاغی کی تحصیل نوکنڈی سے ہے۔ ان کی سیاسی زندگی پر نظر دوڑائی جائے تو ان کا چیئرمین سینیٹ بننے سے قبل کوئی سیاسی پس منظرنہیں ہے۔
وہ ایک کاروبار شخصیت رہے ہیں، جنہوں نے شروع میں وزیراعظم ہاؤس تک رسائی حاصل کی اور نواز شریف کے دور حکومت 1998 میں ان کے کوآرڈینیٹر رہے۔ 2008 میں جب موجودہ چیئرمین سینیٹ کے لیے اپوزیشن کے امیدوار سید یوسف رضاگیلانی وزیراعظم تھے تو صادق سنجرانی ان کے بھی کوآرڈینیٹر رہے۔
ان کی تقرری بحیثیت چیئرمین سینیٹ اس وقت ہوئی جب بلوچستان کے حالات انتہائی خراب تھے اور ایک فوجی آپریشن میں ایک بزرگ سیاستدان نواب اکبر خان بگٹی کو مارا گیا تھا۔
سیاسی مبصرین کے مطابق اس وقت بلوچستان کے حالات میں بہتری لانے اور تناؤ کو کم کرنے کے لیے کسی بلوچ کو مرکز میں لانا تھا، جس کے لیے صادق سنجرانی کو چنا گیا۔
مبصرین کا خیال ہے کہ جس مقصد کے لیے صادق سنجرانی کو ایک بڑے عہدے پر فائز کیا گیا لیکن اس سے بلوچستان میں کوئی بڑی تبدیلی یا ایسا کوئی عمل سامنے نہیں آسکا، جو یہاں کے حالات کو بہتر کرنے میں کارآمد ثابت ہوتا۔
واضح رہے کہ ایوان بالا(سینیٹ) سے 52 سینیٹرز ریٹائر ہوئے تھے، جن میں سے کئی شخصیات دوبارہ منتخب ہو نے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔
48 نو منتخب ارکان سینیٹ نے آج حلف اٹھایا ہے۔ اس وقت صورت حال اس طرح ہے کہ حکومتی اتحاد کے 47 جبکہ اپوزیشن کے 53 سینیٹرز بن گئے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نو منتخب ارکان سینیٹ 12 مارچ کو 6 سال کی مدت یعنی 2021 سے 2027تک کے لیے بطور سینیٹر حلف اٹھائیں گے، تاہم چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کا تقرر تین تین سال کے لیے ہوتا ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ اگر صادق سنجرانی کے دور کو دیکھا جائے تو ہمیں نظر آئے گا کہ انہوں نے بلوچستان کے حالات کو تبدیل کرنے یا ان میں کمی لانے کے لیے کوئی اہم کام نہیں کیا۔
صادق سنجرانی بلوچستان کے دورے کے دوران صرف گورنر ہاؤس تک محدود رہے ہیں۔ انہوں نے بلوچستان کے کسی علاقے کے مسائل جاننے کے لیے دورہ نہیں کیا، تاہم اس میں خاموشی سے کیے گئے دورے شامل ہوسکتے ہیں۔
سیاسی مبصرین کہتے ہیں کہ صادق سنجرانی جہاں ایک طرف چیئرمین سینیٹ کے امیدوار ہیں، وہیں وہ نجی محفلوں میں یہ کہتے بھی نظر آتے ہیں کہ بلوچستان کے آئندہ وزیراعلیٰ بھی وہی ہوں گے۔
دوسری جانب سیاسی امورپر نظر رکھنے والے سینیئر تجزیہ کار شہزادہ ذوالفقار کا ماننا ہے کہ پارلیمانی سیاست میں اور سینیٹ کے ایوان میں صادق سنجرانی ایک مختلف اور نئے چہرے کے طور پر متعارف کیے گیے۔
صادق سنجرانی کے سیاسی دور میں ایک اہم موڑ وہ بھی تھا، جب 2019 میں ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی گئی اور ان کے مقابل میر حاصل بزنجو کھڑے تھے، لیکن ان کے خلاف تحریک ناکامی سے دوچار ہوگئی۔
دوسری جانب بلوچستان کے ضلع چاغی کی سیاست میں محمد صادق سنجرانی کے بھائی اعجاز سنجرانی متحرک نظر آتے ہیں۔ اس سے قبل ان کے والد خان آصف خان سنجرانی خان پینل کے نام سے ضلع میں سیاست میں سرگرم رہے ہیں۔