خبررساںادارے روئٹرز کے مطابق
سٹاک ہوم انٹرنینشل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ(ایس آئی پی آر آئی) کے مطابق 2016 سے 2020 تک پوری دنیا میں اسلحے کی فروخت نسبتاً کم رہی۔
تحقیق کے مطابق اسلحے کی فروخت میں اضافے کے ایک دہائی سے زیادہ جاری رہنے والے رجحان میں تخفیف دیکھی گئی۔
اسلحہ برآمد کرنے والے تین بڑے ملکوں امریکہ، فرانس اور جرمنی کی جانب سے اسلحے کی برآمد میں اضافہ ہوا لیکن روس اور چین کی برآمدات میں کمی ہوئی۔
ایس آئی پی آر آئی کی رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ2001 سے لے کر2005 کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ گذشتہ پانچ برسوں میں ملکوں کے درمیان اسلحے کے بڑے سودے نہیں ہوئے جس ظاہر ہوتا ہے کہ ہتھیاروں کی طلب میں کمی ہوئی ہے۔
ادارے کے مطابق کرونا وبا کی وجہ سے دنیا بھرمیں معیشتیں بری طرح متاثر ہوئیں اور متعدد ملکوں گہرے معاشی زوال کا شکار ہیں لیکن یہ کہنا بہت قبل از وقت ہو گا کہ اسلحے کی فروخت میں ہونے والی کمی کا یہ سلسلہ جاری بھی رہے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے اسلحہ اور فوجی اخراجات کے پروگرام سے منسلک سینیئرمحقق پیٹروزمین نے ایک بیان میں کہا ہے کہ 'کووڈ19کے معاشی اثرات کے پیش نظر آنے والے برسوں میں بعض ملکوں کو اسلحے کی اپنی برآمدات کا نئے سرے جائزہ لینا ہوگا۔' تاہم اس کے ساتھ ہی جب 2020 میں کرونا وائرس کی وبا زوروں پر تھی بڑے ہتھیاروں کی فراہمی کے بڑے معاہدے بہرحال کیے گئے۔
رپورٹ میں اس حوالے سے متحدہ عرب امارات کی مثال دی گئی ہے جس نے 50 ایف 35 جیٹ طیارے اور 18 مسلح ڈرونز کی خریداری کے لیے امریکہ کے ساتھ 23 ارب ڈالر کا معاہدہ کیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق ایشیا اور مغربی ومشرقی نصف کروں کے علاقے اسلحے کے بڑے درآمدکنندگان تھے۔انہوں نے 2016 سے 2020 تک 42 فیصد اسلحہ درآمد کیا۔
ان علاقوں میں بھارت آسٹریلیا،چین،جنوبی کوریا اور پاکستان اسلحہ درآمد کرنے والے بڑے ملک تھے۔
ایس آئی پی آرآئی کے سینیئر ریسرچر سائمن وزمین کہتے ہیں کہ'ایشا اور اوشینیا (آسٹریلیا سمیت چودہ ممالک پر مشتمل جغرافیائی تقسیم)کے بہت سے ملکوں میں یہ سوچ گہری ہو رہی ہے کہ اسلحے کی درآمد میں اضافے کی وجہ چین کو خطرہ سمجھا جانا ہے۔'