1976 اکتوبر کے آخری ایام کی بات ہے کراچی میں ان دنوں سردی تو نہیں ہوتی لیکن صبح کے اوقات میں ہوا میں ہلکی سی خنکی ہوتی ہے اور دھوپ میں سنہرا پن ہوتا ہے۔
ایسی ہی ایک صبح نیشنل سٹیڈیم میں نیوزی لینڈ کی ٹیم کے خلاف سیریز کا تیسرا اور آخری ٹیسٹ شروع ہوا ۔
پاکستانی کپتان مشتاق محمد نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا ۔
صادق محمد اور ماجد خان جب اوپننگ کرنے کے لیے آئیے تو سب کچھ عام سا تھا ہلکی ہلکی ہوا اور شدت پکڑتی ہوئی دھوپ منڈیروں چڑھنے لگی تھی ۔
نیوزی لینڈ کی طرف سے ڈک کولنج نے پہلا اوور شروع کیا تو ماجد خان سامنے تھے ۔ ڈھیلے ڈھالے انداز میں کھڑے ہوئے ماجد خان نے اپنے عزائم کا پتہ پہلے اوور میں ہی فائن لیگ پر چھکا لگا کر دے دیا ۔
آہستہ سے بیٹ اٹھانے والے ماجد خان جن کا شاٹ کھیلنے کا انداز ایک عجیب بے نیازی کا روپ ہوتا تھا۔ لیکن جب ان کا بیٹ ٹائیمنگ کے ساتھ گیند کو ضرب لگاتا تھا تو گیند بولر کے ہاتھ سے چھوٹنے کے بعد باؤنڈری لائین پر ہی نظر آتی تھی۔
کراچی ٹیسٹ میں کیویز کا بولنگ سکواڈ رچرڈ ہیڈلی لانس کیرنز اور ڈک کولنج پر مشتمل تھا جو سیریز میں پہلے ہی مار کھا کھا کر دربدر تھا اس کا آج مائیٹی ماجد خان نے مزید قیمہ بنادیا۔
تینوں بولرز نے فل پچ شارٹ پچ باؤنسرز بیمرز سب آزمالیں لیکن ماجد کا بیٹ رک نہیں تھا۔
دو گھنٹے کی بیٹنگ میں ماجد نے 20 دفعہ گیند کو باؤنڈری کی راہ دکھا دی۔
ماجد خان نے 46 سال کے بعد وہ کارنامہ انجام دے دیا جو 1930 میں سر ڈان بریڈمین نے آخری دفعہ انجام دیا تھا۔
ٹیسٹ میچ کے پہلے دن لنچ سے پہلے سنچری بناکر وہ تاریخ کرکٹ کے چوتھے کھلاڑی بن گئے۔
اب تک کرکٹ کی تاریخ میں صرف 6 ایسی سنچریاں بنائی گئی ہیں اور ماجد خان واحد پاکستانی ہیں۔
کرکٹ کی سفید کٹ میں ملبوس نظر آنے والے ماجد خان کو پاکستان کرکٹ میں سب سے زیادہ کاپی کیا گیا ۔
سلیم ملک رمیز راجہ باسط علی اور کئی کھلاڑی ماجد خان کی نقل کرتے تھے ۔
وہ جس خوبصورتی سے بہت آہستگی سے بیٹ کو حرکت دیتے تھے اسے دیکھنے کا الگ ہی مزہ تھا ۔
کور ڈرائییو ہو یا ہک شاٹ ، وہ ہر شاٹ کمال مہارت سے کھیلتے تھے۔
ماجد خان کئی دوسرے ٹیسٹ کرکٹرز کی طرح بولر بننے آئے اور بہترین بلے باز بن گئے ۔
1964 میں آسٹریلیا کے خلاف انھوں نے بحیثیت فاسٹ بولر کیرئیر کا آغاز کیا لیکن جلد ہی وہ بلے باز کا روپ دھار گئے۔
حالانکہ پہلے ہی ٹیسٹ میں تین وکٹ لیے تھے لیکن ان کی بااعتماد بلے بازی دن بدن ان کو ٹیل اینڈرز سے نکال کر اوپر لاتی رہی اورچند ہی سال میں وہ اوپنر بن گئے ۔
خیال رہے اس زمانے میں سال بھر میں دو سے تین ٹیسٹ ہی کھیلے جاتے تھے ۔
ان کی بیٹنگ کا سنہری دور 1972 سے 1979 کے درمیان تھا جب انھوں نے انگلینڈ ویسٹ انڈیز اور آسٹریلیا کے خطرناک بولرز کےخلاف جم کر بیٹنگ کی۔
ملبورن میں 158 رنز کی اننگز اور جارج ٹاؤن میں ویسٹ انڈیز کی کالی آندھی کے خلاف ان کی سنچریاں ان کی دلیرانہ بیٹنگ کا نمونہ تھیں ۔
ان کے ٹیسٹ کیرئیر میں 8 سنچریاں شامل ہیں جو اوپنر کی حیثیت سے قابل ذکر کارکردگی ہے ۔
ٹیسٹ کپتانی
1972-73 میں انگلینڈ کے خلاف ہوم سیریز میں کپتانی کا اعزاز حاصل کیا اگرچہ تینوں ٹیسٹ ڈرا ہوگئے تھے لیکن ٹیم میں گروپ بندی کے باعث انھوں نے مزید کپتانی سے معزرت کرلی اور اگلے دورے کے لیے انتخاب عالم کپتان مقرر ہوئے۔
ون ڈے کرکٹ کی پہلی سنچری
پاکستان کی طرف سے ون ڈے کرکٹ میں اولین سنچری بنانے کا اعزاز ماجد خان کے پاس ہے جب انھوں نے 1974 کے دورے پر سکورکی ۔ وہ جارحانہ انداز میں کھیلتے تھے اس لیے ون ڈے کے لیے آئیڈیل بلے باز تھے ۔
1979 کے ورلڈکپ کے سیمی فائنل میں فیورٹ ویسٹ انڈیز کے خلاف ان کی ظہیر عباس کے ساتھ پارٹنرشپ پاکستان کرکٹ کی چندیادگار اننگز میں سے ایک ہے ۔
کاؤنٹی کرکٹ
کیمبرج لہجے میں انگریزی بولنے والے ماجد خان نے جس شان اور دبدبے سے انگلینڈ میں کاؤنٹی کرکٹ کھیلی اس سے لگتا تھا وہ کوئی انگریز ہیں۔
گلیمورگن کاؤنٹی کی طرف سے برسوں کھیلتے رہے اور کپتانی بھی کرتے رہے۔ ان کی شاندار بیٹنگ نے پہلے سال ہی کاؤنٹی کو 13ویں سے چوتھے نمبر پر پہنچادیا تھا وہ 1973 سے 1976 تک کپتان رہے ۔
مشہور کمنٹیٹر ایلن ولکنس جو ماجد خان کی قیادت میں کاؤنٹی کھیل چکے ہیں وہ ماجد کو ایک متاثر کن شخصیت سمجھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ماجد بہت کم بولتے ہیں، لیکن جب بھی بولتے ہیں سامنے والے کو متاثر کردیتے ہیں ان کی شخصیت نے انگریزوں کو بھی اپنا دلدادہ بنادیا تھا ۔
اصولوں کے پابند
ماجد خان ایک ایسی کرکٹ فیملی سے تعلق رکھتے ہیں جس کا پاکستان کرکٹ پر گہرا اثر ہے ۔
والد جہانگیر خان متحدہ ہندوستان کی پہلی ٹیم کے رکن تھے، کزن جاوید برکی اور عمران خان پاکستان کرکٹ کے نامی گرامی ستون رہے ہیں۔ ماجد کے بیٹے بازید خان نے بھی ایک ٹیسٹ کھیلا ہے۔ کرکٹ بورڈ کے سی ای او رہنے کے باوجود ماجد خان نے کبھی بیٹے کےلیے کسی سفارش کا استعمال نہیں کیا ۔
وہ اپنے طور طریقوں میں سخت نظم و ضبط کے پابند تھے اور ساتھی کھلاڑیوں سے بھی یہی امید رکھتے تھے۔ آسٹریلیا کے ایک دورے پر ان کے ساتھ سلیم ملک نے جب جہاز کے سفر کے دوران ان سے اخبار مانگا تو ماجد خان نے انکار کرتے ہوئے کہا 'تمھارےکمرے میں بھی اخبار آیا تھا، ساتھ لے کر کیوں نہیں آئے۔'
وہ فیلڈ میں بیحد منظم اور خاموش رہتے تھے۔ سلپ میں فیلڈنگ کرتے ہوئے کبھی انھیں باتیں کرتے نہیں دیکھا گیا کیونکہ وہ اپنی پوری توجہ کھیل پر مرکوز رکھتے تھے۔ اسی لیے 63 ٹیسٹ میچوں میں 70 کیچز ان کے انہماک کی مثال ہیں۔
ماجد خان کو دوسرے کھلاڑیوں کے برعکس کبھی میچ کے بعد شام کو کسی بار یا ریسٹورینٹ میں نہیں دیکھا جاتا تھا وہ میچ کےدوران ساری توجہ میچ پر رکھتے تھے ۔
ماجد خان اپنی بیٹنگ میں اسٹائلش شاٹ کھیلنے کے باعث بہت مقبول تھے وہ فاسٹ بولرز کو فرنٹ فٹ پر ہک اور پل شاٹ کھیلنے کےماہر تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وہ ابتدا سے رنز کی رفتار تیز رکھتے تھے اور کور ڈرائیو کلائیوں کے بل پر بہت خوبصورت انداز میں کھیلتے تھے ۔
ماجد خان کی خاص بات ان کا پرسکون رہنا اور کھیل پر مکمل توجہ رکھنا ہوتا تھا ۔
1976-77 کی ویسٹ انڈیز کی سیریز میں ہیلمٹ کے بغیر برق رفتار بولرز کے خلاف ان کی شاندار اننگز ان کی دلیرانہ بیٹنگ کی مثال ہیں۔
ماجد خان کی جارحانہ بیٹنگ اور پرسکون سٹائل کی وجہ سے گلیمورگن کے مداح جب گراؤنڈ میں انھیں بیٹنگ کے لیے آتے دیکھتےتھے تو مائٹی خان ماجد ۔۔ ماجد ۔۔ کے نعرے لگانے لگتے تھے ماجد اپنے مداحوں کو بھی اپنی جارحانہ بیٹنگ سے خوب محظوظ کرتے تھے ۔
مائٹی خان کے نام سے مشہور ماجد خان آج کل لاہور میں خاموش ریٹائرڈ زندگی گزار رہے ہیں۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ تیس سال پہلے کے کامیاب بلے باز کے تجربے سے پاکستان کرکٹ نے بعد کے برسوں میں پھر کبھی فائدہ نہیں اٹھایا۔ اگر ان سے فائدہ اٹھایا جاتا تو پاکستان کو اوپنرز کی قلت کا سامنا نہ کرنا پڑتا ۔
ماجد خان کو ان کے انداز، ان کے کھیل اور ان کی شخصیت کے باعث کرکٹ کمنٹیٹر میجیسٹک خان اور مائٹی خان کہتے تھے۔
جن لوگوں نے اس وجیہہ و جمیل کرکٹر کو کھیلتے دیکھا ہے وہ آج بھی میجسٹک خان کہتے ہیں ۔