ایسا کیوں ہوتا ہے کہ بعض اوقات انسان کوئی اہم کام کرنے کے لیے کسی کمرے میں داخل ہوتے ہی وہ کام ہی بھول ہی جاتا ہے؟
سائنس دان ایک طویل عرصے سے اس بات کی وضاحت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس سے پہلے اس امر کو ’ڈوروے ایفیکٹ‘ یا ’دروازے کے اثر‘ کا نتیجہ قرار دیا جاتا تھا، جس کے تحت ہم کوئی حد پار کرتے ہی فوری اہمیت کی حامل باتیں بھول جاتے ہیں۔ یہ حد دروازے کی طرح جسمانی ہو سکتی ہے یا پھر انٹرنیٹ براؤزر پر ٹیب تبدیل کرنے کی طرح ورچوئل ہو سکتی ہے۔
2011 میں ایک سروے کے بعد اس حوالے سے وضاحت ابھر کر سامنے آئی۔ یہ سروے نوٹرا ڈیم کے محققین نے کیا تھا۔
لیکن اس کے بعد بونڈ یونیورسٹی نے ایک تحقیق کی، جس کے نتیجے میں یہ سامنے آیا کہ بھول جانے کے معاملے میں صرف ’دروازوں‘ کا اثر اتنا اہم نہیں جتنا کہ اس سے پہلے ہونے والی تحقیق میں دعویٰ کیا گیا تھا۔
اس طرح اس حقیقت کے بارے میں نیا خیال پیش کیا گیا ہے۔
سائنس دانوں کو معلوم ہوا ہے کہ بھول جانا صرف خود دروازے یا اس میں سے گزرنے کا سبب نہیں تھا بلکہ مقام کی تبدیلی کی وجہ سے وہ معلومات دماغ سے نکل گئیں، جنہیں اس نے غیرمتعلقہ سمجھا۔
تحقیق کرنے والی ٹیم نے چار سٹڈیز کیں۔ دو میں حقیقی مقامات کو استعمال میں لایا گیا جب کہ دو میں شرکا کو ورچوئل ریئلٹی کے ہیڈ سیٹ پہنا کر انہیں تھری ڈی ماحول میں مختلف کمروں میں گھمایا گیا۔
تحقیق میں شامل افراد سے کہا گیا کہ وہ ہر کمرے میں میزوں پر رکھی اشیا (زرد رنگ کا کراس، نیلے رنگ کی کون وغیرہ) کو یاد کرلیں اور پھر اس کے بعد ان اشیا کو اسی ترتیب کے ساتھ ایک سے دوسری میز پر منتقل کر دیں۔
اہم ترین بات یہ ہے کہ بعض اوقات اگلی میز اسی کمرے میں موجود تھی اور بعض اوقات لوگوں کو آٹومیٹک دروازے سے گزر کر دوسرے کمرے میں جانا پڑا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تحقیق کرنے والوں کو معلوم ہوا کہ اس تبدیلی کا لوگوں کے دماغ پر کوئی اثر نہیں ہوا اور ایسا بہت کم ہوا کہ وہ اشیا کو بھول گئے ہوں، چاہے وہ کسی دروازے سے گزرے ہوں یا نہیں۔
لیکن جب محققین نے یادداشت کے امتحان کو زیادہ سخت بنایا اور شرکا سے کہا کہ وہ بیک وقت گنتی کرنے کا الگ کام انجام دیتے ہوئے میز پر رکھی اشیا یاد کرکے انہیں ایک سے دوسری میز پر منتقل کریں تو اس امتحان کے نتیجے میں ’دروازے سے گزرنے کا اثر‘ نمایاں ہوگیا۔
تحقیق کے مصنفین ڈاکٹر اولیور بومین اور ڈاکٹر جیسیکا میکفیڈن نے وضاحت کی: ’ہوا یہ کہ گنتی کے کام نے لوگوں کی یادداشت پر بوجھ میں اضافہ کردیا، جس سے وہ دروازے کی وجہ سے ہونے والی مداخلت سے زیادہ متاثر ہوئے۔‘
مصنفین نے کہا: ’یہ نتیجہ روزمرہ کے تجربے سے زیادہ ملتا جلتا ہے جب ہم توجہ کے دوسری طرف ہونے اور کچھ اور سوچتے ہوئے یہ اکثر بھول جاتے ہیں کہ ہم کمرے میں کیا کرنے آئے تھے؟‘
اس حقیقت کی وضاحت کرتے ہوئے ڈاکٹر بومین نے کہا کہ دماغ مختلف ماحول اور تناظر میں یادداشت کو حصوں میں تقسیم کر دیتا ہے۔
انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر دماغ کسی بات کے بارے میں مختلف تناظر میں سوچتا ہے تو اس یادداشت سے متعلق معلومات کو مختلف نیٹ ورکس میں ڈال دیتا ہے۔ مجموعی طور پر اس طرح ہمیں زیادہ گنجائش ملتی ہے بہ نسبت اس کے جب آپ کے پاس کام کا وہ وسیع و عریض مقام ہو جہاں چیزیں ایک دوسرے سے جڑی ہوتی ہیں۔‘
ساتھ ہی ان کا کہنا تھا: ’لیکن اس کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔ یادداشت کے ایک سے دوسرے حصے میں جاتے ہوئے ہم باتیں بھول سکتے ہیں۔‘
ڈاکٹر بومین کے مطابق بونڈ سٹڈی سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ خود کو بھولنے سے ’محفوظ‘ بنانا ممکن ہے۔
ان کا کہنا تھا: ’اگر ہماری توجہ صرف اسی کام پر ہو جو ہم کرنا چاہتے ہیں تو کوئی بات ہمیں اسے یاد رکھنے سے نہیں روک سکتی، لیکن اگر ہمارے سامنے بہت سے کام ہو رہے ہوں تو بھول جانا نمایاں ہو جاتا ہے۔‘
© The Independent