صوبہ سندھ کے صحرائی علاقے تھر کے شہر چھاچھرو سے 14 کلومیٹر دور گاؤں بھارمل کے رہائشی اور کراچی کے ایک ریستوران میں کام کرنے والے نوجوان بھیرو مل میگھواڑ کے گھر آٹھ دن پہلے بیٹی کی پیدائش ہوئی، جسے دیکھنے وہ اپنے گاؤں آئے۔
بھیرو مل میگھواڑ اگلے ہی دن قریبی گاؤں بھاڈے میں حالیہ دنوں ہونے والی فوتگی پر تعزیت کرنے گئے مگر اگلی صبح اطلاع آئی کہ انہوں نے کنویں میں چھلانگ لگا کر خود کشی کرلی ہے۔
بھیرو مل میگھواڑ کے کزن اور سماجی کارکن دسرت میگھواڑ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’بھیرو مل تین ماہ بعد کراچی سے آئے، انہیں کوئی پریشانی نہیں تھی، نہ جانے کیا ہوا کہ خودکشی کرلی۔‘
تھرپارکر کے ضلعی ہیڈکواٹر شہر مٹھی کے رہائشی اور مقامی صحافی کھاٹاؤ جانی کے مطابق منگل کو ایک ہی دن میں ڈاہلی اور اسلام کوٹ تحصیلوں میں ایک خاتون سمیت چار افراد کی خودکشیاں رپورٹ ہوئی ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کھاٹاؤ جانی نے کہا کہ ’صحرائے تھر میں گذشتہ کئی سالوں سے خودکشیاں ہو رہی ہیں، جن میں وقت گزرنے کے ساتھ اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ 2021 کے ڈھائی ماہ کے دوران خودکشی کے 23 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں، جن میں اکثریت ہندوؤں کی نچلی ذاتیں بشمول بھیل، کولہی، میگھواڑوں کی ہے اور ان میں بھی اکثریت خواتین کی ہے۔‘
پاکستان میں ہندو تنظیموں کے مطابق پاکستان میں بسنے والے ہندوؤں کی اکثریت سندھ اور سندھ میں بھی زیریں سندھ کے میرپور خاص اور حیدرآباد ڈویژن کے اضلاع میں مقیم ہے۔
رقبے کے لحاظ سے سندھ کے سب سے بڑے ضلع تھرپارکر کی کل آبادی 16 لاکھ ہے، جس میں سے آدھی آبادی ہندو ہے۔
2011 سے صحرائے تھر میں ہونے والی خودکشیوں کے اعداد و شمار اکھٹے کرنے والی سماجی تنظیم ایسوسی ایشن فار اپلائیڈ ایجوکیشن اینڈ رینو ایبل انرجی کے ڈائریکٹر علی اکبر راہموں کے مطابق تھر میں زیادہ تر خودکشیاں اسلام کوٹ تحصیل میں رپورٹ ہوئی ہیں۔
ان کے مطابق: ’تھر میں دلتوں یا ہندوؤں کی نچلی ذاتوں میں خودکشیوں کی اکثریت ہے جس میں اب خطرناک حد تک اضافہ ہوگیا ہے۔ ہم نے جو اعداد و شمار جمع کیے ان کے مطابق تھر میں کسی سال 40 تو کسی سال 90 خودکشیاں ہوتی ہیں یا پھر اوسطاً ہر سال 70 خودکشیاں ہوتی ہیں، جس میں اب اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ دلت ہندوؤں میں بھی خواتین کی تعداد سب سے زیادہ ہے، جو خودکشیاں کرتی ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
خودکشیوں کے اسباب پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کوئلے کے منصوبوں کے بعد تھر میں بڑے پیمانے پر نقل مکانی بھی ہوئی جس سے ’ایک دوسری کی مدد‘ پر منبی تھری سماج کی بناوٹ شدید متاثر ہوئی ہے، جو خودکشیوں کی ایک وجہ ہے۔
علی اکبر راہموں نے مزید بتایا: ’اس کے علاوہ تھر میں جاری مسلسل قحط سالی، غربت اور حالیہ سالوں میں مہنگائی کے باعث تھر کی غریب آبادی کو شدید معاشی مشکلات کا سامنا ہے، یہ خودکشیوں کی ایک اور وجہ ہے۔ تھر میں کوئلے کے منصوبوں کے باعث مقامی لوگوں میں غیر یقینی کی صورت حال ہے اور مہنگائی نے اس صورت حال کو مزید خراب کر دیا ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ تھر میں کوئلے کے منصوبوں کے بعد سڑک کی تعمیر اور موبائل نیٹ ورک آنے کے بعد لوگوں میں احساس محرومی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
صحرائے تھر میں بارانی زراعت اور مویشی روزگار کے واحد ذرائع ہیں، اگر بارش نہ ہو تو نہ صرف زراعت نہیں ہوتی بلکہ مویشیوں کے چارے کا بھی مسئلہ ہو جاتا ہے۔
پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زائدہ متاثر ہونے والا خطہ صحرائے تھر سمجھا جاتا ہے، جہاں گذشتہ کئی سالوں سے شدید قحط سالی جاری ہے۔ خشک سالی کے دوران مقامی لوگ اپنے مویشیوں کے ساتھ کئی سو کلومیٹر کا پیدل سفر کر کے صوبے کے ان اضلاع میں جاتے ہیں جہاں آپباشی یا دریا کے پانی پر زراعت کی جاتی ہے۔
وہاں پہنچ کر تھری لوگ مقامی زمینداروں کی کھیتوں پر فصل کی کٹائی کی مزدوری کرتے ہیں، تاکہ کچھ پیسوں کے ساتھ اپنے مویشیوں کے چارے کا بندوبست کرسکیں۔ یہ لوگ تھر میں بارش ہونے کے بعد دوبارہ پیدل سفر کرکے اپنے آبائی علاقوں میں واپس آتے ہیں۔
کھاٹاؤ جانی کے مطابق پہلے تو لوگ صرف خشک سالی کے دوران عارضی نقل مکانی کرتے ہیں، مگر اب مہنگائی کی وجہ سے محوسفر رہتے ہیں۔
دوسری جانب سندھ حکومت کے اقدامات جاننے کے لیے دیگر صوبوں کی طرح سندھ میں کئی سالوں سے کام کرنے والی مینٹل ہیلتھ اتھارٹی یعنی ادارہ دماغی صحت کے سربراہ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر ڈاکٹر کریم خواجہ سے جب رابطہ کیا گیا تو انہوں نے صحرائے تھر میں خودکشیوں کے بڑھتے ہوئے کیسز کے اسباب پر تبصرہ کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ’نہ صرف تھر بلکہ پورے سندھ میں خودکشیوں سے متعلق ہمارا ادارہ کئی سالوں سے تحقیق کر رہا ہے اور اس تحقیق کی تفصیلی رپورٹ اگلے ہفتے جاری کی جائے گی، اس سے پہلے کچھ نہیں کہہ سکتا۔‘
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر کریم خواجہ نے کہا کہ ’ہم تھر میں خودکشیوں سے متعلق آگاہ ہیں اور ہم نے تھر فاؤنڈیشن، لیاقت میڈیکل یونیورسٹی جامشورو، ڈی سی تھرپارکر اور محکمہ صحت سندھ کے ساتھ مل کر ایک پروگرام بنایا ہے کہ تھر میں لیڈی ہیلتھ ورکرز کی تربیت کی جائے گی اور تھرپارکر کی ساتوں تحصیلوں کی لیڈی ہیلتھ ورکر آن لائن تربیت لے کر تھر میں خودکشیوں پر کام کریں گی اور اس طرح ہم خودکشیوں پر جلد ہی قابو پالیں گے۔‘