بھارت میں وسیم رضوی نامی ایک شخص نے 12 مارچ کو سپریم کورٹ آف انڈیا میں ایک پی آئی ایل (پبلک انٹرسٹ لیٹیگیشن) دائر کی ہے جس میں انہوں نے موقف اپنایا ہے کہ قرآن میں 26 آیتیں ایسی ہیں جو ان کے بقول بعد میں شامل کی گئی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ان 26 آیتوں میں جہاد کا ذکر ہے جس سے انتہا پسندی کو فروغ ملتا ہے۔ اس کے بعد سے بھارت اور دوسرے ملکوں میں وسیم رضوی پر سخت تنقید اور احتجاج کا سلسلہ جاری ہے اور خود ان کے اپنے خاندان کے لوگوں نے ان سے لاتعلقی اختیار کر لی ہے۔
مختلف مذہبی تنظیموں نے اسے شہرت حاصل کرنے کا ہتھکنڈا قرار دیا ہے جبکہ ان کے خلاف ایف آئی آر بھی درج کی گئی ہے۔
وسیم رضوی کون ہیں؟
وسیم رضوی اتر پردیش کے دارالحکومت لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ وہ حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی اور نرینندر مودی کے بڑے مداح ہیں۔
پہلے وہ اتر پردیش کی ایک بڑی سیاسی جماعت سماج وادی پارٹی کے منظور نظر تھے۔ 1995 تا 2020 تک بھارت کی ریاست اتر پردیش میں شیعہ وقف بورڈ کے چیئرمین کے عہدے پر فائز رہے۔ تاہم 2012 میں کرپشن کی وجہ سے انہیں پارٹی نے نکال دیا گیا۔
رضوی بابری مسجد کی جگہ مندر بنانے کے شدید حامی رہے ہیں۔ 2019 میں انہوں نے ’رام کی جنم بھومی‘ فلم لکھی اور اسے خود پروڈیوس بھی کیا۔
اس کے علاوہ بھی وسیم رضوی میڈیا کی سرخیوں میں آتے رہے ہیں۔ یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی ادتیا ناتھ اور وزیراعظم مودی کے نام ایک خط میں انہوں نے لکھا تھا کہ بھارت سے دینی مدرسوں کو ختم کر دینا چاہیے۔ اسی طرح ایک اور خط میں انہوں نے الزام عائد کیا کہ بہت ساری ایسی مساجد ہیں جو مندروں کو مسمار کر کے بنائی گئی ہیں لہٰذا مندروں کو اپنی اصل جگہوں پر بحال کیا جائے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تاہم قرآن میں رد و بدل کے ان کے تازہ مطالبے پر بھارت بھر سے ان کے خلاف شدید رد عمل سامنے آیا ہے۔ نہ صرف شیعہ کمیونٹی بلکہ خود ان کے خاندان کے لوگوں نے بھی درخواست گزار سے بریت کا اعلان کیا ہے۔
ایک ویڈیو پیغام میں رضوی کا کہنا ہے کہ ان سے سب الگ ہو گئے ہیں لیکن وہ یہ کیس جیتیں گے اور اگر جیت نہ سکے تو خودکشی کر سکیں گے۔
بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ سینٹرل بیورو آف انوسٹی گیشن (سی بی آئی) رضوی کے خلاف کرپشن کے کیسوں کی تحقیقات کر رہی ہے اور اس وقت ان کا سپریم کورٹ میں اس طرح کی عرضی دائر کرنے کا ایک مقصد ان کیسوں سے چھٹکارا حاصل کرنا بھی ہو سکتا ہے۔
چاند مل چوپڑا کیس
آزاد بھارت میں قرآن کو عدالت میں چیلنج کرنے کا یہ دوسرا واقعہ ہے۔ اس سے پہلے 1985 میں چاند مل چوپڑا نامی شخص نے قرآن کو کلکتہ ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔
ان کا موقف تھا کہ 85 آیتیں ایسی ہیں جو بقول ان کے تشدد کو بڑھاوا دیتی ہیں۔ اس سے پہلے سال 1984 میں چکھرابرتی نامی شخص نے مغربی بنگال کے سیکریٹری برائے محکمہ داخلہ کو خط لکھ کر قرآن پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا تھا۔ یہ شخص بعد میں چاند مل سے ملا اور کورٹ میں جانے سے پہلے مل نے بھی مذکورہ محکمہ داخلہ کے سیکریٹری کو خط کے ذریعے اس طرح کا مطالبہ کیا تھا۔
چاند مل کی درخواست سماعت کے لیے کلکتہ ہائی کورٹ کی جج پدما خستگر نے منظور کر لی تھی۔ اس وقت وہاں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی حکومت تھی۔ درخواست کے سماعت کے لیے منظور ہونے پر مغربی بنگال کے اس وقت کے وزیراعلیٰ جیوتی بسو نے سخت برہمی کا اظہار کیا تھا۔
اس وقت مرکز میں انڈین نیشنل کانگریس کی حکومت تھی اور راجیو گاندھی وزیر اعظم تھے۔ اس ضمن میں ریاستی (مغربی بنگال) کی حکومت کو مرکز کی حمایت بھی حاصل تھی۔ بعد ازاں چیف جسٹس آف کلکتہ ہائی کورٹ نے اس کیس کو جسٹس خستگر کی عدالت سے جسٹس باسکر کو منتقل کیا۔
دونوں حکومتوں نے یہ کیس ہائی کورٹ میں مسلمانوں کی طرف سے لڑا اور بالآخر جسٹس باسکر نے فیصلہ دیا کہ یہ مقدمہ خارج کیا جاتا ہے کیونکہ قرآن خدا کا کلام ہے اور کسی آسمانی کتاب پر مقدمہ نہیں چل سکتا۔
کیا وسیم رضوی کا کیس قابلِ سماعت ہے؟
1985 کے کلکتہ قرآن پٹیشن کیس کی روشنی میں یہی لگتا ہے کہ عدالت عظمیٰ اس کیس کو ناقابل سماعت قرار دے کر عرضی گزار کے خلاف عدالت کا قیمتی وقت ضائع کرنے پر جرمانہ بھی عائد کر سکتی ہے۔
مسلمانوں کی بڑی تعداد کا کہنا ہے کہ اس پٹیشن سے ناصرف ان کے جذبات مجروح ہوئے ہیں بلکہ یہ ایک طرح کی نفرت انگیزی ہے جو مسلمانوں کو اشتعال دلانے کے مترادف ہے۔