تنزانیہ کے صدر جان مگوفولی کے انتقال کے بعد سامیہ حسن سوہولو جیسی خوش گفتار مسلمان خاتون اچانک نائب صدر سے صدر بن گئی ہیں۔ حجاب میں ملبوث اور ایک ہاتھ میں قرآن اٹھائے، انہوں نے جعمے کو دارالسلام میں اپنے عہدے کا حلف اٹھایا۔
ملک کے آئین کے مطابق 61 سالہ نائب صدر سامیہ اب جان مگوفولی کی پانچ سالہ صدارتی مدت 2025 تک نبھانے کی پابند ہیں۔
ایک سابق کلرک اور ترقیاتی کارکن، سامیہ نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز 2000 میں سرزمین تنزانیہ پر قومی اسمبلی کی رکن منتخب ہونے سے قبل اپنے آبائی علاقے زنجبار میں کیا جو ایک نیم خود مختار جزیرہ نما علاقہ ہے۔ انہیں اس وقت بھی ایک سینیئر وزارت تفویض کی گئی تھی۔
حکمران جماعت کی ایک قدآور شخصیت ہونے کے ناطے انہیں 2015 میں پہلی صدارتی انتخابی مہم میں مگوفولی نے اپنا ساتھی منتخب کیا تھا۔
ان کی پارٹی چاما چا ماپندوزی (سی سی ایم) آرام سے جیت گئی اور حسن نے ملک کی پہلی خاتون نائب صدر کی حیثیت سے حلف لیا۔
اس جوڑے کا انتخاب گذشتہ اکتوبر میں ایک متنازع رائے شماری میں کیا گیا تھا جسے حزب اختلاف اور آزاد مبصرین نے بےضابطگیوں سے بھرپور قرار دیا تھا۔
وہ کبھی کبھی بیرون ملک دوروں میں مگوفولی کی نمائندگی کرتی تھیں لیکن تنزانیہ سے باہر بہت کم لوگوں نے سامیہ حسن کے بارے میں اس وقت تک سنا تھا جب وہ سیاہ ہیڈ سکارف پہن کر قومی ٹیلی ویژن پر نمودار ہوئیں اور اعلان کیا کہ مگوفولی مختصر علالت کے بعد 61 سال کی عمر میں انتقال کر گئے ہیں۔
سابق صدر کی دھواں دھار تقاریر کے برعکس دھیما بولنے والی سامیہ حسن نے 14 دن کے سوگ کا اعلان کیا۔ انہوں نے کہا کہ نئے نائب صدر کی منظوری کے لیے وہ اپنی جماعت سے مشاورت کریں گی۔
’سانس روک لو‘
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سامیہ حسن کو مرحوم صدر کے پارٹی کے اندر طاقتور اتحادیوں کے دباؤ کا سامنا کرنا پڑے گا جو انٹیلی جنس اور حکومت کے دیگر اہم شعبوں پر حاوی ہیں جو اپنے فیصلوں اور ایجنڈے کو آگے بڑھنے کی کوشش کریں گے۔
ڈنمارک کی روسکلڈے یونیورسٹی کے محقق اور تنزانیہ کے ماہر تھابت جیکب نے کہا کہ ’جو لوگ مگوفولی کے طریقہ کار سے علیحدگی کی توقع کر رہے تھے ان کے بارے میں میں کہوں گا کہ اس وقت آپ سانس روک لیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’میں سمجھتا ہوں کہ انہیں اپنی بنیاد مضبوط کرنے کے لیے جدوجہد کرنا پڑے گی۔۔۔ہمیں وسیع تبدیلیوں کی امید نہیں کرنی چاہیے۔‘
مگوفولی جنہیں ان کے رویے کی وجہ سے ’بلڈوزر‘ کا لقب دیا گیا تھا سے ان کی وفاداری پر 2016 میں شک کیا گیا تھا۔
ان کے دفتر کو ایک بیان جاری کرنے پر مجبور کیا گیا جس میں انہوں نے اس بات سے انکار کیا تھا کہ انہوں نے صدر کے ساتھ اختلافات کی وجہ سے استعفیٰ دے دیا تھا جس کا اشارہ گذشتہ سال ایک عوامی تقریر میں صدر نے دیا تھا۔
انہوں نے صدر کے سامنے کہا کہ ’جب آپ نے صدر کے طور پر کام کرنا شروع کیا تو ہم میں سے بہت سے لوگوں کو سمجھ نہیں آئی کہ آپ اصل میں کیا چاہتے ہیں۔ ہم آپ کی سمت نہیں جانتے تھے۔ لیکن آج ہم سب تنزانیہ کی ترقی کے بارے میں آپ کے عزائم کو جانتے ہیں۔‘
کام کروا لینا
سامیہ حسن 27 جنوری 1960 کو بحر ہند کے سابق تجارتی اور غلاموں کے مرکز زنجبار میں پیدا ہوئی تھیں۔
اس وقت بھی ایک مسلمان ریاست زنجبار مزید چار سال تک باقاعدہ طور پر تنزانیہ میں ضم نہیں ہوا تھا۔
ان کے والد سکول کے استاد اور والدہ ایک گھریلو خاتون تھیں۔ حسن نے ہائی سکول سے گریجویشن کی لیکن عوامی سطح پر کہہ چکی ہیں کہ ان کے نتائج خراب تھے۔ انہوں نے 17 سال کی عمر میں ایک سرکاری دفتر میں کلرک کی ملازمت شروع کر دی۔
1988 تک مزید تعلیم حاصل کرنے کے بعد حسن زنجبار حکومت میں افسر کے رینک تک ترقی کر چکی تھیں۔
انہوں نے اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام (ایف ایف پی) کی پروجیکٹ منیجر کے طور پر ملازمت بھی کی اور بعد ازاں 1990 کی دہائی میں زنجبار میں غیر سرکاری تنظیموں کو چلانے والی تنظیم کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر بنا دی گئیں۔
2000 میں انہیں حکمران جماعت نے زنجبار کے ایوان نمائندگان کی ایک خصوصی نشست پر نامزد کیا تھا۔ اس کے بعد وہ مقامی حکومت کی وزیر کے طور پر کام کرتی رہیں -- پہلے نوجوانوں کے روزگار، خواتین اور بچوں اور پھر سیاحت اور تجارتی سرمایہ کاری کے لیے۔
2010 میں وہ سرزمین تنزانیہ پر قومی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں۔ پھر اس وقت کے صدر جاکایا کیکویتے نے انہیں مرکزی امور کا وزیر مملکت مقرر کیا۔
وہ تنزانیہ، برطانیہ اور امریکہ سے یونیورسٹی کی تعلیم کی حاصل کر چکی ہیں۔ چار بچوں کی والدہ نے تنزانیہ کی خواتین اور لڑکیوں کو اپنے خوابوں کو حقیقت دینے کی ترغیب کے لیے عوامی سطح پر بات کی ہے۔
حسن نے گذشتہ سال ایک تقریر میں کہا: ’میں شائستہ لگ سکتی ہوں اور بولتے وقت چیختی نہیں ہوں لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہر کوئی میری بات کو سمجھتا ہے اور کام میری مرضی کا ہو جاتا ہے۔‘