پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں ایک ہفتے کے دوران دو مبینہ پولیس مقابلوں میں تین ملزموں کی ہلاکت کے بعد پولیس کے اختیارات پر سوال اٹھ رہے ہیں۔
گذشتہ ہفتے 13 مارچ کو ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں پولیس کو پانچ ملزموں کو زندہ پکڑتے دیکھا گیا، تاہم بعد میں اعلان کیا گیا کہ ان میں سے دو پولیس مقابلے میں مارے گئے ہیں۔ اسی طرح اگلے ہی روز تھانہ شفیق آباد کی حدود میں بھی آصف نامی ملزم کو مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاک کر دیا گیا۔
یہ ایسا پہلا واقعہ نہیں ہے۔ لاہور سمیت پنجاب کے دیگر اضلاع میں بھی بیشتر پولیس مقابلوں میں ملزموں کو ماورائے عدالت قتل کرنے کے واقعات رپورٹ ہوتے رہتے ہیں۔
محکمہ پولیس کے اپنے ریکارڈ کے مطابق گذشتہ چھ ماہ میں مبینہ پولیس مقابلوں میں آٹھ افراد مارے جا چکے ہیں لیکن ذمہ دار پولیس اہلکاروں کے خلاف محکمانہ کارروائی ابھی تک مکمل نہیں ہوسکی اور نہ ہی کسی کو سزا دی گئی۔
’بیٹے کو دفنانے بھی نہیں دیا گیا‘
پولیس مقابلوں میں مارے جانے والے ملزمان کے والدین دہائیاں دیتے رہ جاتے ہیں۔ اس بار بھی ایسا ہی ہوا۔
کاہنہ میں پولیس کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے نوجوان محمد سفیان کے بھائی محمد رمضان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’ہمیں علم ہوا ہے کہ میرے بھائی کو مخالفین نے ایک قتل کے مقدمے میں عداوت پر نامزد کیا ہوا تھا۔ انہوں نے ہی کاہنہ پولیس سے ساز باز کرکے 25 لاکھ روپے دے کر جعلی مقابلے میں بھائی کو مروا دیا ہے۔‘
سفیان کی والدہ کا کہنا تھا کہ کاہنہ پولیس نے انہیں دھمکی دےکر احتجاج کرنے سے منع کیا اور خالی کاغذات پر انگھوٹے بھی لگوائے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سفیان کے والد محمد یونس کا کہنا تھا: ’مقابلے کے بعد کہا گیا کہ وہ ڈکیتی کر کے فرار ہو رہے تھے، پولیس نے پکڑنے کی کوشش کی تو انہوں نے فائر کردیا جس کے بعد پولیس کی جوابی فائرنگ سے وہ اور اس کا دوست وقاص ہلاک ہوئے۔ لیکن دو دن بعد جو ویڈیو منظر عام پر آئی اس میں انہیں زندہ پکڑے دکھایا گیا۔ تو پھر عدالت میں پیش کرنے کی بجائے انہیں قتل کیوں کیا گیا؟‘
محمد یونس کے بقول پولیس نے اپنی نگرانی میں پوسٹ مارٹم کے بعد غسل دے کر دونوں کی تدفین کردی، نماز جنازہ کے لیے بھی اہل خانہ کو لاشوں کے قریب جانے کی اجازت نہیں دی۔ ’ہم اپنے بچوں کا آخری دیدار بھی نہ کر سکے، نہ قبر پر مٹی ڈالنے دی گئی۔ پولیس ایک دن تک قبروں کا پہرہ بھی دیتی رہی۔‘
چھ ماہ، آٹھ قتل
کاہنہ میں اس سے قبل بھی ایک مبینہ ڈاکو مارا گیا تھا۔ شفیق آباد میں دو روز قبل ڈولفن پولیس کے ساتھ مقابلے میں آصف نامی ڈاکو مارا گیا، جبکہ مانگامنڈی میں ایک ماہ قبل بھی ملزم شمشیر عرف چھمی نامی مقامی شخص پولیس کے ساتھ مقابلے میں مارا گیا تھا۔
اسی طرح دو ماہ قبل لیاقت آباد میں ڈولفن پولیس کے ساتھ مقابلے میں جہانگر نامی مبینہ ڈاکو مارا گیا۔ اس مقابلے کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی منظر عام پر آئی جس کے بعد ڈولفن اہلکار معطل ہوئے اور انکوائری شروع ہوئی لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا۔
تین ماہ قبل باٹا پور میں اینٹی وہیکل لفٹنگ سٹاف کے ساتھ مقابلے میں ایک کانسٹیبل کو ہلاک کرنے والا اعظم نامی ڈاکو مارا گیا تھا جبکہ چھ ماہ قبل فیصل ٹاؤن میں ایک گھر میں ڈکیتی کے بعد فرار ہونے والے دو ڈاکو مقامی پولیس کے ساتھ مقابلے میں ہلاک ہوگئے تھے۔
گارڈن ٹاون اور شاہدرہ سمیت مختلف علاقوں میں پولیس مقابلوں کے بعد سات ڈاکو اور منشیات فروش زندہ بھی گرفتار ہوچکے ہیں۔ مگر کاہنہ میں گرفتار ڈاکوؤں ہلاکت کے بعد پولیس مقابلوں پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔
پولیس قانونی حدود کیا؟
قانونی ماہرین کے مطابق پولیس اہلکار صرف سیلف ڈیفنس یعنی دوسری جانب سے فائرنگ کی صورت میں فائر کھول سکتے ہیں۔ اس میں بھی ملزموں کو زندہ گرفتار کرنے کی کوشش لازمی ہے۔
ماورائے عدالت قتل کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ماہر قانون سابق سیکرٹری سپریم کورٹ بار آفتاب احمد باجوہ نے کہا کہ 2013 اور 2014 کی پولیس ایکٹ کے تحت تمام مقابلوں کی جوڈیشل انکوائری کی جاتی ہے لیکن یہ انکوائری مجسٹریٹ لیول تک ہوتی ہے۔ ان کا کہنا تھا: ’پولیس مقابلے کی جوڈیشل انکوائری ہائی کورٹ کے معزز جج خود کریں اور ایک کیس کو بھی مثال بنائیں تو جعلی مقابلوں میں خاطرخواہ کمی آسکتی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ پولیس آرڈر 2002میں بھی پولیس اہلکاروں کو واضع طور پر قانون نے پابند کیا ہے کہ وہ کسی بھی ملزم کو گرفتاری کے بعد ماورائے عدالت نہ جان سے مار سکتے ہیں نہ ہی تشدد کیا جاسکتا ہے۔ عدالت سے جسمانی ریمانڈ کا مطلب بھی ان پر جسمانی تشدد نہیں بلکہ جسمانی طور پر تفتیش کے لیے پولیس کی حراست میں دیاجانا ہے۔
انکوائری کا حکم
کاہنہ کے کیس میں ڈی آئی جی آپریشن شارق جمال نے ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد ویڈیو میں دکھائی دینے والے چار پولیس اہلکاروں کو معطل کر کے ایس ایس پی آپریشن کو انکوائری کا حکم دیا لیکن ساتھ ہی اس پولیس مقابلے کو درست قرار دیتے ہوئے کہا کہ ملزموں نے فائرنگ کی جس کے نتیجے میں پولیس اہلکاروں نے بھی جان بچانے کے لیے جوابی فائر کیا جس سے وہ مارے گئے۔
لاہور پولیس کے چیف (سی سی پی او) غلام محمود ڈوگر سے جب سوال کیا گیا کہ پولیس مقابلوں کی تعداد بڑھتی کیوں جارہی ہے، تو ان کا کہنا تھا: ’یہ تاثر غلط ہے کہ پولیس قانون کو ہاتھ میں لے کر ملزموں کو مار رہی ہے کیونکہ گذشتہ چند ماہ میں ہمارے چار ڈولفن اور ایک پولیس اہلکار بھی ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن کے دوران مارے گئے ہیں۔‘
ان کے مطابق پولیس جب جرائم پیشہ افراد کا تعاقب کرتی ہے تو وہ پولیس پر فائرنگ کرتے ہیں اور خود کو بچانے کے لیے پولیس اہلکار بھی فائرنگ کرتے ہیں، مگر پولیس کو یہ اختیار نہیں دیا جاتا کہ وہ گرفتاری کے بعد کسی بھی ملزم کو تشدد کا نشانہ بنائیں یا مار ڈالیں۔
سی سی پی او کے مطابق کسی بھی ملزم کی سزا وجزا کا اختیار عدالتوں کو ہے لیکن خطرناک ملزموں کے خلاف آپریشن میں پولیس افسران اور اہلکاروں کو اپنی جان بچانے کے لیے فائر کھولنا پڑتا ہے۔
یاد رہے کہ حکمران جماعت پی ٹی آئی کی جانب سے سابق دور حکومت میں پنجاب میں پولیس مقابلوں کے خلاف شدید ردعمل ظاہر کیا جاتا تھا۔ اسی لیے پارٹی نے پولیس اصلاحات کو انتخابی منشور کا حصہ بنا کر ماورائے قانون اقدامات روکنے کا دعویٰ کیا گیا، تاہم اقتدار میں آئے اڑھائی سال گزرنے کے باوجود موجودہ حکومت بھی اس محکمے میں اصلاحات کی بجائے اعلیٰ افسران کے تبادلوں تک ہی محدود ہے۔