کولاچی بستی کو شہر کراچی میں بدلنا پارسی برادری کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ یہاں آج بھی ہوٹلوں، پارکوں، ہسپتالوں اور تعلیمی اداروں میں پارسی کمیونٹی کے نمایاں نام کندہ ہیں۔
لیکن ایسا نہیں ہے کہ پارسی برادری نے صرف کراچی میں اپنا نقش چھوڑا ہے۔ کوئٹہ کو سنوارنے میں بھی پارسی کمیونٹی آگے آگے رہی ہے۔ صنعتی ترقی ہو یا پھر سماجی اور تعلیمی ادارے، کوئٹہ شہر میں پارسی کل بھی تعداد میں کم تھے اور آج بس گنے چنے ہی رہ گئے ہیں، لیکن ان کی چھاپ ہر جگہ گہری ہے۔
کوئٹہ شہر کی پارسی کالونی
روشن خورشید بروچہ پارسی انجمن پاکستان کی جنرل سیکریٹری ہیں اور کوئٹہ اور سکھر کی پارسی انجمن کی سربراہ ہیں۔ وہ جناح روڈ کوئٹہ پر واقع پارسی کالونی میں رہائش پذیر ہیں۔
یہ کالونی 1935 کے قیامت خیز زلزلے میں تباہ ہو گئی تھی۔ زلزلے میں پارسی انجمن کے تین سو افراد ہلاک ہوئے۔ زلزلے کے بعد اس کالونی کی دوبارہ تعمیر کے بارے میں سوچا گیا اور تعمیر کے لیے پارسی انجمن نے ہندوستان بھر سے چندہ جمع کیا۔
اس وقت کی کوئٹہ پارسی پنچایت نے فیصلہ کیا تھا کہ گھروں پر بار بار رنگ و روغن کرانے کے جھنجھٹ سے بچنے کے لیے گھر پتھر سے تعمیر کیے جائیں۔ 1939 میں اس کالونی کی تعمیر مکمل ہوئی۔
کالونی میں کل 14 گھر ہیں۔ یہیں پارسی عبادت گاہ ہے۔ یہاں اب بہت تھوڑے سے پارسی رہ گئے ہیں۔ روشن نے پارسی کالونی میں گھماتے ہوئے ہمیں بتایا کہ ہم ان گھروں کا کرایہ ادا کرتے ہیں۔ انہوں نے ہم سے پوچھا: ’آپ کے خیال میں گھر کا کرایہ کتنا ہے؟‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہم چپ رہے۔ روشن مسکرائیں اور بتایا کہ ’صرف475 روپے اور یہ کرایہ بھی اس لیے کہ ہماری کالونی کا اپنا ٹیوب ویل ہے، اس کا بل، صفائی اور کالونی میں باغ بانی کا اہتمام کیا جاتا ہے۔‘
اب کالونی میں صرف دو سے تین گھر آباد ہیں۔ روشن اپنی چچی اور گھر کے دیگر لوگوں کے ساتھ رہتی ہیں۔ سماجی کاموں کے ساتھ ساتھ ایس او ایس ولیج بلوچستان میں مصروف رہتی ہیں۔ انہوں نے بتایا: ’مجھے کتوں اور پرندوں کا بڑا شوق ہے اور انہی سے دل بہلاتی ہوں۔‘
اٹھارویں صدی میں روشن خورشید کے والد کا خاندان ایرانی شہر یزد سے ہجرت کر کے کوئٹہ شہر میں آباد ہوا جبکہ والدہ بھارتی شہر گجرات سے شادی کر کے کوئٹہ آئیں۔ ان کے بچپن کی سنہری یادوں میں بھارت کا سفر بھی شامل ہے۔ روشن کوئٹہ میں پیدا ہوئیں اور وہیں تعلیم حاصل کی۔ وہ بلوچستان کی سماجی اور سیاسی کردار ادا کرتی آ رہی ہیں۔
پارسی کمیونٹی کے تہوار
سب ہی جانتے ہیں کہ ’نوروز‘ ایرانی تہذیب کا ایک اہم حصہ ہے۔ یہ تہوار ایرانی کیلینڈر کے پہلے مہینے اور سال نو کے ساتھ ساتھ بہار کی آمد کا بھی اعلان کرتا ہے۔ جن جن خطوں میں ایرانی تہذیب نے اپنے رنگ جمائے، وہاں یہ تہوار اپنے اپنے مقامی انداز کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ یعنی وسط ایشیائی ممالک سے لے کر بھارت اور پاکستان میں بھی پارسی، بوہری، بہائی اور آغا خانی یہ تہوار مناتے ہیں۔ یہ تہوار کہیں ثقافتی انداز میں اور کہیں مذہبی جوش و جذبے سے منایا جاتا ہے۔
دنیا بھر کے پارسیوں کے لیے نو روز کا دن نئی زندگی اور نئے سال کی خوشیوں کا پیغام ہے۔ یہ خوشحالی، صحت، دولت اور خاندان بھر کے لیے دعاؤں کے ساتھ ساتھ گناہوں سے توبہ کا بھی دن ہے۔
پارسی کمیونٹی نوروز سال میں دو بار مناتی ہے۔ پہلا نوروز 20-21 مارچ کو منایا جاتا ہے، جو ’قدیمی کیلینڈر‘ کے پہلے دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ جبکہ دوسرا تہوار ’جشن نوروز یا جشن جمشید‘ اگست میں مناتے ہیں۔ یہ دن پارسی کمیونٹی میں ’شہنشاہی کیلینڈر‘ کے نئے سال کا آغاز ہے۔ ساتھ ہی پاک و ہند کے پارسیوں کے لیے یہ دن اس لیے بھی اہم ہے کہ کئی سو سال پہلے اسی دن پارسی کمیونٹی ایران سے نکل کر بھارتی شہر گجرات منتقل ہوئی تھی۔
نوروز پارسی کمیونٹی میں کیسے منایا جاتا ہے؟
اس حوالے سے روشن خورشید بروچہ کا کہنا تھا کہ ’اتوار کے دن منایا جانے والے اس تہوار کے لیے سب ہی پرجوش ہوتے ہیں۔ ایک گہماگہمی کا سماں رہتا ہے۔ اب اس تہوار پر بھی سب آئیں گے۔ یہ پارسی کمیونٹی کا ایک اہم تہوار ہے۔ سب مل کر ہی منائیں گے۔
’اس تہوار میں ہم میزیں سجاتے ہیں۔ ہم پہل پہل کچھ گندم بھگو دیتے ہیں۔ اس میں کلے پھوٹنے کے بعد انہیں گملے میں لگا دیا جاتا ہے۔ یعنی ہماری غذا اور غلہ یوں ہی سارے سال چلتا رہے۔ نوروز والے دن میز پر اپنی چیزیں سجاتے ہیں۔ جیسے عید پر میز مختلف کھانوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ ویسے ہی نوروز کی ابتدا، پھولوں، پکوانوں اور تحائف سے کرتے ہیں۔ کوئی بھی گھر میں مہمان آتا ہے تو اس پر عرق گلاب چھڑ کا جاتا ہے۔ کوئی شیرنی کھلاتے ہیں۔ آئینہ دکھاتے ہیں تاکہ پورے سال خوشبو میں نہاتے رہیں، منہ میٹھا اور آئینے کی طرح روشن رہیں۔ چمکتے رہیں۔‘
روشن نے مزید وضاحت کی کہ ’یہ روایات ہمارے ساتھ ایران سے چلی آ رہی ہیں اور آج بھی ہم وہی کرتے ہیں۔ ملک کے دیگر شہروں کے مقابلے میں کوئٹہ میں کیونکہ ایک چھوٹی کمیونٹی ہے اس لیے یہاں زیادہ اہتمام سے مناتے ہیں۔ باہر کے لوگ، رشتے دار اور دوست احباب سب آتے ہیں۔ کالونی میں ایک رونق میلہ لگا رہتا ہے۔‘
کوئٹہ کی ترقی سے جڑا پارسی کمیونٹی کا ماضی
وہ ماضی کو یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ کوئٹہ کی تاریخ پارسی کمیونٹی کے ناموں کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی۔ خواتین کی تعلیم سے لے کر ان کے سماجی کردار تک پارسی کمیونٹی نے کام کیا ہے۔ ان کے بنائے ہوئے سماجی ادارے جیسے پردہ باغ، ایگفا کلب اور گرلز گائیڈ۔ خواتین کی صحت کے حوالے سے لیڈی ڈیفرن ہسپتال اور چلڈرن ہسپتال آج بھی کوئٹہ پارسی کمیونٹی کی پہچان ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ’کوئٹہ کی پہلی فارماسوٹیکل کمپنی اردشیر مارکر نے بنائی۔ یہی نہیں بلکہ کوئٹہ کا پہلی پرنٹنگ پریس ’وکٹوریہ پریس‘ 1888 میں نوسروان جی منچر جی نے قائم کیا۔ وکٹوریہ پریس ماہنامہ ’بلوچستان ایڈوائزر،‘ ’بارڈر ویکلی نیوز،‘ ’ڈیلی بلیٹن‘ اور ’بلوچستان گزٹ‘ نکالتے تھے۔
’اس کے علاوہ دوسرے پرنٹنگ پریسوں میں ’البرٹ پریس‘ شامل ہے جسے دادا بھائی گول والا نے 1891 قائم کیا۔ اسی طرح بلوچستان کی پہلی آئس فیکٹری بھی ہم نے ہی لگائی۔ پارسی کمیونٹی نے سب سے زیادہ تعلیم کے فروغ میں حصہ لیا۔ مقامی پارسیوں نے بطور استاد اپنا کردار خوب نبھایا۔ ہم تعلیم کی اہمیت کو سمجھتے ہیں اور ہماری کمیونٹی میں آپ کو کوئی غیر تعلیم یافتہ شخص نہیں ملے گا۔‘
روشن نے کہا: ’ہم وہ لوگ ہیں جو چاہتے ہیں کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ مل کر رہیں۔ چاہے وہ مسلم ہو، ہندو ہو یا پھر عیسائی۔ کیونکہ ہمارا مذہب میں تعلیم دیتا ہے کہ اچھے کام کرو، اچھا سنو اور اچھا بولو۔ اچھا سوچو۔ اس لیے سب کی طرح ہم بھی انسانیت کو اہمیت دیتے ہیں۔ ہم بلوچ معاشرے میں رچے بسے لوگ ہیں۔ ہم خود مقامی ہیں۔ ہمیں ہمارے بلوچی بھائیوں نے ہمیشہ عزت دی ہے۔‘
پارسی کمیونٹی کی آبادی میں تیزی سے کمی کیوں؟
دنیا بھر میں پارسیوں مذہب کے پیروکاروں کی تعداد میں کمی آئی ہے۔ اس وقت پارسیوں کی بڑی آبادی بھارت، پھر ایران اور پھر امریکہ میں ہے۔ پاکستان کی بات کریں تو اعداد و شمار کے مطابق پہلے پہل ان کی تعداد دس ہزار سے پانچ ہزار تک کم ہوئی۔ 2014 میں نادرا کے اعداد و شمار کے مطابق 4020 پاکستانیوں کا مذہب پارسی تھا۔ یہ تعداد اگلی مردم شماری تک 1092 تک گر گئی ہے۔
پارسیوں کی تعداد میں کمی کے سوال پر روشن کا کہنا ہے کہ ’ہاں، آبادی میں کمی ضرور آئی ہے لیکن یہ کسی سماجی دباؤ کی وجہ سے نہیں۔ مجھے نہیں یاد کہ کوئٹہ شہر میں پارسی کمیونٹی کو کبھی مقامی دباؤ کا سامنا رہا ہو۔ سوائے ایک آبادان فریدون کے اغوا کے کیس کے۔‘
چند وجوہات کی نشاندہی انہوں نے کچھ اس طرح کی کہ ’کمیونٹی کے بچے پہلے پہل باہر پڑھنے جاتے ہیں، پھر کوئی شادی کر لیتا ہے اور وہیں رچ بس جاتا ہے۔ ہمارا خود چھوٹا سا خاندان ہے۔ میرے تینوں بچے بچیاں باہر ہیں۔ کبھی وہ یہاں آتے ہیں اور کبھی ہم ان سے ملنے چلے جاتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہماری پارسی کمیونٹی کے لوگ وکیل بھی رہے ہیں، اور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں بھی۔ جیسے رداب پٹیل، چیف سکریٹری پونیکر صاحب۔ ہمارے لوگ فوج میں رہے ہیں۔ میرے اپنے شوہر فوج میں تھے، لیکن آج کے بچے اس لیے بھی باہر جا رہے ہیں کیونکہ انہیں اپنے مزاج کے مطابق نوکری نہیں ملتی۔ ہمیں کسی قسم کا کوئی دباؤ نہیں ہے۔ ہم یہاں کوئٹہ میں بہت خوش ہیں۔ بلوچستان کے لوگ پڑھے لکھے ہیں۔ بلوچستان اور پاکستان ہمارا گھر ہے۔ ہمارے لیے یہاں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
’میرا اپنا بھتیجا امریکہ گیا۔ پانچ سال پڑھ کر واپس آیا ہے اور اب زراعت کے شعبے میں کام کرہا ہے۔ کافی بچے باہر جاتے ہیں۔ وہ واپس بھی آتے ہیں اور تہواروں اور چھٹیوں پر اپنے ملک اور گھر آتے ہیں۔ کوئی اپنے ملک کو نہیں بھولتا۔ پاکستان ہمارا پیارا وطن ہے۔‘
پارسی کمیونٹی کی مذہبی رسمیں
تین ہزار سال پرانے پارسی مذہب کے بارے میں روشن نے بتایا کہ ’ہم عبادت خانے میں بھی اپنی دعا اور عبادات کرتے ہیں اور اپنے گھر میں بھی۔ اپنے مرحومین کو یاد کرتے ہیں۔ مقامی رنگ بھی اپنا لیتے ہیں۔ میں بھی جمعہ کے دن ان چنوں پر پڑھتی ہوں۔ اور پھر لوگوں میں بانٹ دیتی ہوں۔‘
دس سال کی عمر میں بچوں کی نوجوت کی رسم
انہوں نے مزید بتایا: ’ہم مذہبی تقریبات میں بچوں کو ساتھ تو لے کر جاتے ہیں، لیکن ان پر مذہبی پابندیاں عائد نہیں ہوتیں۔ بچہ جب دس سال کا ہو جاتا ہے تو بچے کی پارسی مذہب اختیار کرنے کی باقاعدہ رسم ادا کی جاتی ہے۔ جو ’نوجوت‘ کہلاتی ہے، یعنی اب بچہ باقاعدہ پارسی مذہب میں داخل ہو گیا ہے۔ بچوں کے نئے کپڑے بنتے ہیں اور انہیں ہار پھول پہنا کر عبادت گاہ لے جاتے ہیں۔‘ اپنے بچوں کے نوجوت کی تقریب کی تصویر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ اس تصویر میں یہ ان کا بیٹا سائرس اور بیٹی شنایا ہے۔
(تصاویر: شیما صدیقی)