شام کا انقلاب: دس سال کے بعد شامی آج کہاں کھڑے ہیں؟

وہ بہتر مستقبل کی امید لیے شام میں انقلابی تحریک کا حصہ بنے۔ دس برس ہوگئے اب وہ اپنے گھروں سے دور در بدر پھرتے ہیں۔

ایک شامی بچہ شمالی شام میں عنب کی چوکی میں لوگوں کو پہنچتے دیکھ رہا ہے (اے ایف پی)

تہانی اور احمد نے بشار الاسد کے خلاف ابھرتی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ لاکھوں شامیوں کی طرح گذشتہ دس برس میں ان کی زندگیاں بھی ہمیشہ کے لیے تبدیل ہو گئیں۔

 دمشق کے مرکزی مقام پر ایک غیر معمولی احتجاج سے متعلق فیس بک کا دعوت نامہ دیکھتے ہی تہانی کی ماں نے سراسیمگی کے عالم میں ان سے درخواست کی کہ خدا کے لیے وہاں نہ جاؤ، میری پیاری! سیدھی گھر پہنچو۔

نفسیات کے چوتھے سال کی پر عزم طالبہ آخری کلاس کے بعد چھپتی چھپاتی کسی نہ کسی طرح ریلی کے مجوزہ مقام پر پہنچ گئیں۔

یہ مارچ 2011 کے ابتدائی دنوں کی بات ہے جب شام میں عرب بہار کی تحریک ابھرنا شروع ہوئی تھی۔

شمال کی جانب 40 کلومیٹر دور مضایہ کے پہاڑی شہر میں جب 16 سالہ احمد تک دارالحکومت کے مرکز میں برپا احتجاج کی خبریں پہنچیں تو اس کی آنکھیں بھیگ گئیں۔ نوجوان کو ایک سال پہلے اپنے دادا کی دکان پر کام کرنے کے لیے سکول چھوڑنا پڑا تھا جہاں وہ تعمیراتی کاروبار شروع کرنے کے خواہش مند تھے، اگرچہ انہیں اندازہ تھا کہ یہ بیل کبھی منڈھے نہ چڑھے گی۔

ملحقہ شہروں سے آنے والے 26 سالہ احمد اور 32 سالہ تہانی کی اس سے پہلے کبھی ملاقات ہوئی تھی نہ ہی وہ ایک دوسرے کو جانتے تھے۔

ملحقہ قصبوں سے تعلق کے باوجود 26 سالہ احمد اور تہانی، جن کی عمر اب 32 سال ہے، کبھی آپس میں ملے نہیں تھے اور ایک دوسرے کو نہیں جانتے تھے۔

وہ شام کے دو مختلف شہری ہیں جو اپنے اپنے ڈھنگ سے عرب بہار کی تیز رو موج کے ساتھ بہتے چلے آئے، جس نے آج سے ٹھیک ایک دہائی قبل شام کو اپنی لپیٹ میں لیا تھا۔

 ان دونوں کی کہانیاں بہت حد تک مختلف ہونے کے باوجود دل خراش ملکی صورت حال بیان کرتی ہیں جہاں متوقع انقلاب، اکیسویں صدی کی پرتشدد سول وار میں ڈھل گیا۔ گذشتہ 10 برس میں یہ جنگ دنیا کے چند طاقتور ترین ممالک کے درمیان بتدریج پیچیدہ پراکسی وار کی شکل اختیار کر گئی ہے۔

جب تہانی احتجاجی مقام کے نقطہ آغاز پر پہنچی تو بدحواس سکیورٹی فورسز مجمع کو منتشر کرنے کے بعد دمشق کی گلیوں میں بکھرے مظاہرین کا تعاقب کر رہی تھیں۔ قیدیوں سے بھرے ان کے ٹرک سڑک کنارے قطار کی صورت کھڑے تھے، لیکن یہ سخت گیر حملہ احمد کے حوصلے پست نہ کر سکا۔

شمال مغربی صوبے ادلب میں اپنے موجودہ ٹھکانے سے وہ دی انڈپینڈنٹ سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں: 'ہم سب پھنس گئے تھے۔ یہاں تک کہ صدر اسد کے حامیوں نے بھی شام کے شہریوں کے ساتھ اس ناانصافی کو محسوس کیا لیکن وہ حکومت سے خوفزدہ تھے۔'

'اس تحریک کا حصہ بننا خطرے سے خالی نہ تھا لیکن ہم جانتے تھے کہ یہ انقلاب کے لیے ایک سنہری موقع ہے۔'

گذشتہ دس سال سے تہانی جرمنی میں بطور پناہ گرین زندگی گزار رہی ہیں۔ بہت سے دیگر افراد کی طرح وہ بھی انقلابی سرگرمیوں کی وجہ سے دھر لی گئی تھیں، جہاں تشدد کا نشانہ بننے کے بعد طویل اور پرصعوبت پیدل سفر کرتے ہوئے وہ شام سے یورپ بھاگنے میں کامیاب ہوئیں ۔ اپنے بچوں کو احتجاج میں شرکت سے روکنے والی ان کی ماں 2014 میں حراست کے دوران لا پتہ ہوگئیں اور ان کی ابھی تک کوئی خبر نہیں۔

احمد محض 16 برس کی عمر میں صدر بشار الاسد کے خلاف تحریک کا حصہ بنے تھے، لیکن نہ جیت سکنے والی جنگ کے دس سالہ جنگی تجربے کے علاوہ کسی دوسری صلاحیت کے فقدان اور انتہائی محدود ذرائع آمدن نے انہیں مجبور کر دیا کہ خاندان کا پیٹ پالنے کے لیے وہ ترکی کی پشت پناہی سے لڑنے والی شامی فورسز کا حصہ بن جائیں، جو انقرہ کی جنگ دوسری سرزمین پر لڑ رہی تھیں۔ خطے میں ترکی کی مداخلت کو ناپسندیدہ نظروں سے دیکھنے کے باوجود انہوں نے 2020 کا زیادہ تر وقت بھاڑے کے سپاہی کے طور پر گزارا، جہاں بظاہر وہ لیبیا میں انقرہ کے تنخواہ دار ملازم تھے۔

بدقسمت انقلاب کے شام میں آغاز کے ساتھ ہی حکمران طبقے نے مسلح اداروں کی مدد سے مظاہرین کے خلاف انتہائی پرتشدد رویہ اختیار کیا۔ بعد میں اسد نے بری اور فضائی افواج کو مسلح مظاہرین کے خلاف بھرپور کارروائیوں کی کھلی چھوٹ دے دی۔

ملک بھر کے مختلف شہروں اور دیہاتوں میں فضائی حملے، بیرل بم اور کیمیائی ہتھیاروں کی بارش کر دی گئی۔ اس تنازعے میں اس وقت شدت آ گئی جب 2015 میں اسد کی حمایت میں باغیوں کے خلاف روس نے حملہ کیا اور ایک سال بعد اپنے مفادات کے پیش نظر ترکی نے حزب اختلاف کی طرف سے مداخلت کی۔

اس طرح بکھرے ہوئے غیر ملکی سپاہیوں، مسلح جتھوں اور جہادی گرہوں کے درمیان فائرنگ کے نتیجے میں شام کے عام شہریوں کی بڑی تعداد بری طرح متاثر ہوئی۔

 کوئی نہیں جانتا کہ کتنے لوگ موت کا نشانہ بن گئے۔ اقوام متحدہ نے اس وقت گنتی روک دی جب اموات کی تعداد چار لاکھ سے تجاوز کر گئی۔

 کسی حد تک اندازہ ریڈ کراس کی عالمی کمیٹی کی اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ قریبی رشتہ داروں یا دوستوں کی فراہم کردہ معلومات کے مطابق شام میں تمام نوجوانوں کی تعداد کا نصف ( 'نوجوان' کا کیا مطلب ہے؟ کسی مخصوص عرصے سے کم عمر؟) اس جنگ میں موت کے گھاٹ اتر چکا ہے۔

 لیکن شام کی تباہی کا واحد پیمانہ موت نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کے شعبہ اطفال کے مطابق وہ وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ چھ ہزار بچے (جن میں بعض سات برس کے کم عمر بھی شامل ہیں) جنگ کے لیے بھرتی کیے گئے ہیں جس کی ایک مثال احمد ہے۔ 

دوسری طرف تہانی کی طرح تقریباً چھ ملین شامیوں کو اپنے گھر چھوڑنے پڑے۔ (سات ملین ملک کے اندر ہی در بدر پھرتے ہیں)۔

 شام میں تحریک کی داستان سنانے کے لیے مناسب الفاظ تلاش کرنے میں دقّت کا سامنا کرتے ہوئے تہانی کہتی ہیں: 'مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ کہاں سے شروع کروں اور کہاں ختم کروں۔'

'آپ اسے آزادی کا خواب دیکھنے والوں کے منظم قتل عام کے سوا کیا نام دے سکتے ہیں؟'

' وہ اچانک غائب ہو گئیں'

تین سال تک تہانی گرفتاری یا اس سے بھی بدتر صورت حال سے بچنے کے لیے اپنے گھر میں سونے کی بجائے وہ خفیہ طور پر در بدر پھرتی رہیں۔ دمشق میں اولین ریلی میں شرکت نہ کر سکنے کے چند روز بعد سے انہوں نے اپنے رہائشی علاقے زبدانی میں احتجاجی جلوس منعقد کرنے شروع کر دئیے جو لبنان کی سرحد کے نزدیک ایک پہاڑی علاقہ اور مضایا سے زیادہ دور نہیں۔

انہوں نے مظاہروں کے دوران اپنی مختلف بنائی گئیں ویڈیوز یوٹیوب پر اپ لوڈ کردیں جو وائرل ہو گئیں۔ انہوں نے سویلین صحافیوں کا ایک سلسلہ مربوط کرنا شروع کر دیا اور اسی وجہ سے وہ ہدف ٹھہریں۔

زبدانی حزب اختلاف کا مضبوط مرکز بن گیا، جس پر فروری 2020 میں حکومت نے دھاوا بول دیا۔ آدھی رات کے دوران تہانی اپنے خاندان کے ساتھ پیدل چلتے ہوئے ایک قریبی گاؤں میں پہنچیں جو نسبتاً محفوظ علاقہ تھا۔ جولائی 2014 میں وہ ملٹری چیک پوائنٹ پر اس وقت خاندان سمیت پکڑی گئیں جب وہ کسی دوسرے شہر فرار کی کوشش کر رہی تھیں۔ تہانی کو حراست میں لیا گیا، جہاں کئی ماہ تک تین مختلف سکیورٹی اداروں کے درمیان گردش کرتیں بالآخر مرکزی جیل بھیج دی گئیں۔

جیل میں تہانی کو 15 دیگر عورتوں کے ساتھ ایک غلیظ اور تنگ سیل میں بند کر دیا گیا جہاں ان کے بقول فاقہ کشی اور پانی سے محرومی برداشت کرنا پڑی۔ قریبی کمروں میں تشدد کے سبب ابھرتی آوازوں میں ان کے تمام خیالات ڈوبنے لگتے۔ کسی کو بولنے کی اجازت نہیں تھی اس لیے وہ گھپ اندھیرے میں سرگوشی سے بات چیت کرتیں۔ وہ کہتی ہیں ایک بار انہیں اس قدر بری طرح پیٹا گیا کہ کئی ماہ تک ان کے جسم پر نشان پڑے رہے۔

نومبر میں ان کی ماں کو انہیں دیکھنے اور کچھ ضروری سامنے پہنچانے کی اجازت ملی لیکن اس کے فوری بعد انہیں بھی گرفتار کر لیا گیا۔

پھر ان کی کوئی خبر نہیں ملی۔ خاندان کو کوئی اندازہ نہیں کہ وہ کہاں ہیں، کیوں گرفتار کی گئیں یا وہ زندہ بھی ہیں کہ نہیں۔ ان کے متعلق سراغ لگانے کی انتھک کوششوں کے باوجود ان کے متعلق بتانے کو کچھ نہیں۔

 تہانی کہتی ہیں' وہ اچانک غائب ہو گئیں۔'

محاصرہ

وہ جانتے تھے یہ ایک جوا ہے لیکن 2011 کی گرمیوں میں فوجی بھگوڑوں پر مشتمل ایک گروہ کی قائم کردہ نئی تنظیم فری سیرین آرمی کا رکن بنتے ہوئے احمد اور ان کے کزن مکمل جذبات کی گرفت میں تھے۔

مضایا کی آبادی کو بہت کچھ گنوانا پڑا۔ جنگ سے پہلے دمشق کی اشرافیہ کے لیے ہفتہ وار چھٹیاں منانے کا یہ من پسند علاقہ تھا، جہاں سیاحوں کی آمد و رفت سے اس کی رونق میں خوب اضافہ دیکھنے کو ملا۔

دراصل شہر سے باہر نکلتے ہی 'گریپ وائن' کے نام سے معروف مضایا کی لگژری نشست گاہوں کا جال پھیلا ہے، جو شام کے با اثر طبقات کی ملکیت ہیں۔ شہر کی مرکزی مارکیٹ سمگل شدہ پارچہ جات کے لیے مشہور تھی جہاں ایسے بدیسی برانڈز کے کپڑے ملتے کہ پورے شام میں کسی دوسری جگہ جن کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ۔

لیکن احمد کہتے ہیں مضایا کے لوگ اشرافیہ کی خدمت گزاری کے سوا بھی بہت کچھ چاہتے تھے۔ وہ سیاسی آزادی کے خواہش مند تھے۔

مسلح سپاہ سے منسلک ہونے کے فیصلے پر وہ کہتے ہیں: '(اسد) حکومت نے ہمیں مجبور کر دیا کہ ہم ان کے خلاف ہتھیار اٹھا لیں، حزب اختلاف کے لیے بچاؤ کا یہ واحد راستہ تھا۔'

جیسے ہی جنگ کا دائرہ مختلف شہروں تک وسیع ہوا انہی کی طرح مسلح جتھے کا حصہ بننے والے ان کے چھ کزن مارے گئے۔ جنگ سے بھی زیادہ تکلیف دہ فاقہ کشی تھی۔

 مختلف متحرک گرہوں اور فری سیرین آرمی کے لیے مضایا کسی بہشت سے کم نہ تھا کیونکہ حکومت نے بہت جلد سکیورٹی فورسز وہاں سے واپس بلا لی تھیں۔

جون 2015 میں حکومتی دستوں نے 40 ہزار نفوس پر مشتمل شہر کو محاصرے میں لے کر قسطوں میں مارنے کی بنیاد رکھی۔

انہوں نے تہانی کے گودام سمیت تیزی سے الماریاں سامان سے خالی کرنا شروع کر دیں جس سے خوراک کی قیمتیں اتنی بڑھ گئیں کہ ایک وقت آیا جب فی کلو چاول یا چینی کی قیمت 400 ڈالرز تک جا پہنچی اور یہ ایسی کہانی ہے جو بعد میں شام کے دیگر بہت سے شہروں میں بھی دہرائی گئی۔

'حزب اختلاف کے لیے اب اسد کو شکست دینا بہت ہی مشکل ہے بالخصوص جب ایران اور روس اس کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔'

والدین نے اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کے لیے مسالحے ڈال کر درختوں کے پتے ابالنے شروع کر دئیے۔ خاندانوں کی گزر بسر آوارہ کتے، بلیاں اور سیہ (ہیج ہاگس) کھا کر ہونے لگی۔ بہت سے لوگوں نے خودکشی کی کوشش کی۔

شام میں حکومتی حامیوں کے اکثریتی علاقے پر حزب اختلاف نے سخت محاصرہ لگا دیا جو اہم موڑ ثابت ہوا اور حکومت اپنے اتحادیوں سمیت مذاکرات پر آمادہ ہو گئی۔ چھ ماہ بعد اقوام متحدہ کی پہلی امداد کو بالآخر 2016 میں داخلے کی اجازت مل گئی۔

 2017 میں متحارب گروہ فور ٹاؤنز ایگریمنٹ (four towns agreement ) پر متفق ہو گئے جس کے مطابق مضایا اور زبدانی کے باغی محصور ین کو بسوں کے ذریعے ادلب انخلا کی اجازت ہو گی اور بدلے میں حکومتی حامیوں کے شہر فوا اور کیفریہ کی محصور آبادی کو آزاد کر دیا جائے گا۔

بسووں کے ذریعے ادلب پہنچے والے افراد میں احمد بھی شامل تھا جو دربدر شہریوں، باغیوں اور مسلح گروہوں کی شام میں آخری پناہ گاہ بن گئی۔ اس وقت احمد پر اس حقیقت کا انکشاف ہوا کہ حکومت کے خلاف مسلح جدوجہد بے سود تھی۔

'تب تک میں اپنے زیادہ تر دوست کھو چکا تھا۔'

یورپ کی طرف سفر کی داستان

2014 کے موسم خزاں میں جب تہانی کو جیل سے رہائی ملی تو شام میں خاندان کا ایک بھی فرد نہ بچا تھا جو ان کا استقبال کرتا۔

ان کی ماں، چاچو اور کزن حراست کے بعد لاپتہ ہو چکے تھے۔ ان کے والد کینسر کی وجہ سے موت کا شکار ہوگئے، جنہوں نے اپنے کھیت کھلیان چھوڑنے سے انکار کر دیا تھا، جن پر اسد کے توپ خانوں سے اس قدر شدید فائرنگ کی گئی کہ ایک بھی درخت اپنی جگہ کھڑا نہ رہا ۔ ایک بہن کے سوا خاندان کے باقی افراد بھاگ گئے تھے اور زیادہ تر پڑوسی بھی موت کی آغوش میں سو چکے تھے۔

اب شام میں ان کے لیے کیا بچا تھا سو ستمبر 2015 میں وہ ایک ایندھن والے ٹرک میں چھپ کر لبنان فرار ہو گئیں، جس کے بعد یورپ میں پناہ کی جوت جگائے وہ ترکی جا پہنچیں۔

یہاں لاکھوں دیگر شامیوں کے طرح وہ بھی ایک ہزار ڈالر کے بدلے ربڑ کی ہوا بھری چھوٹی کشتی کی مدد سے یونان پہنچ گئیں۔ سمگلرز جنہیں وہ مافیا کے نام سے یاد کرتی ہیں، نے بیس بندوں کی گنجائش والی کشتی میں پچاس افراد کو کھینچ تان کے بھرا اور پھر سمندر کے حوالے کر دیا۔

وہ کہتی ہیں: 'سفر کا دورانیہ تقریباً چار گھنٹے رہا اور اس دوران کئی بار موت جیسے ہمیں چھو کر گزر گئی۔'

'سمندر بپھرا ہوا تھا۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ اسے کیسے چلایا جائے۔ سمتوں کا تعین کیسے کرنا ہے کسی کے علم میں نہ تھا۔ ہمارا زندہ سلامت پہنچنا کسی معجزے سے کم نہ تھا۔'

پناہ گزینوں سے جرمنی کے ہمدردانہ رویے کی خبریں سن کر وہ تن تنہا یونان سے بلقان کے راستے چل پڑیں ۔ جو لوگ اس سے پہلے جا چکے تھے ان سے ضروری ہدایات لیں اور گوگل میپ کی مدد سے راستے تلاش کرنے کی کوشش کی۔ اتفاق سے گرتے پڑتے وہ نسبتاً صحیح راستے سے براعظم پار کر گئیں ۔ ایک مقام پر انہوں نے بہانے سے کام لیتے ہوئے کچھ شامی نوجوانوں کو اپنے بچے ظاہر کیا تاکہ انہیں حراست سے بچایا جا سکے۔

حکام نے وقفے وقفے سے ان کی مدد کی ہو گی یا کچھ کو واپس بھیج دیا ہو گا۔

کئی دن تک وہ کھلے میدان میں سوتے رہے خاص طور پر مختلف ممالک کی سرحدوں پر جہاں اجازت نامے کے لیے انہیں انتظار کرنا پڑتا تھا۔ جن ممالک سے وہ گزر کر آئیں شاید ہی ان کا نام یاد ہو۔

خوفناک سفر کو یاد کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ 'میں جس قدر ممکن ہوتا جاگتی اور کسی دوسرے پر اعتماد نہ کرتی تھی اسی لیے میں زندہ بچ گئی۔'

 اس دوران سب سے بری چیز پولیس کے کتے تھے جو بچوں کے لیے خوف کا باعث تھے۔

کسی دوسرے کی جنگ

احمد لیبیا میں محض اس لیے کرایہ کش سپاہی بننے کو تیار ہو گئے کیونکہ اس کا معاوضہ اچھا خاصہ تھا اور ان کے خیال میں اس طرح کشتی کے ذریعے یورپ ہجرت کرنے کا امکان تھا ۔

 2019 میں دو برس تک ادلب میں نہایت پسماندگی کی زندگی گزارنے کے بعد انہوں نے ترکی کی پشت پناہی سے چلنے والی سیرین نیشنل آرمی میں شرکت کرلی جب انقرہ کی طرف سے شام کے شمالی علاقے میں کردوں پر متنازعہ حملوں کا آغاز کیا گیا۔

کچھ ماہ بعد لیبیا کی حکومت کے کہنے پر ترکی نے باقاعدہ مداخلت شروع کر دی جس کا ہدف طرابلس پر قبضے کے لیے کوشاں باغی ایسٹرن کمانڈر خلیفہ حفتر تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

احمد کہتے ہیں وفاقی معاہدے کے تحت وجود میں آنے والی لیبیا کی حکومت نے ترکی کی مدد سے شامیوں کو ماہانہ دو ہزار ڈالرز کا وعدہ کیا جو ترکی کی جانب سے شام کے شمالی علاقے میں لڑنے کے بدلے ماہانہ پانچ سو ترک لیرے (70  ڈالرز) کی نسبت اچھی خاصی زیادہ رقم تھی۔

لیکن لیبیا میں کرایہ کش سپاہی بننے میں احمد کا اصل مفاد یورپ سے جغرافیائی قرب میں پوشیدہ تھا۔

وہ انڈپینڈنٹ کو بتاتے ہیں کہ 'میں نے بہت سے شامی افراد کے متعلق سن رکھا تھا کہ وہ لیبیا کے ساحل سے کشتی کے ذریعے یورپ پہنچے ہیں۔'

'ہمیں لیبیا میں جاری جنگ سے کچھ خاص لینا دینا نہ تھا۔ اس میں شریک اکثر شامی یہ تک نہ جانتے تھے کہ وہ کس کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ محض پیسے کی خاطر وہاں گئے تھے کیونکہ شام میں وہ فاقہ کشی پر مجبور تھے۔ یہ تکلیف دہ تھا۔'

وہ کہتے ہیں کہ لوٹ مار اور ہتھیار چھیننے سمیت شامیوں کے سرکش رویے نے لیبیا کے کئی دستوں کو مشتعل کر دیا، جو اپنی جنگ میں شریک غیر ملکیوں کی حرکات سے پریشان نظر آئے۔

دوسری طرف شامی حکومت نے شامیوں کو بھرتی کرنا شروع کر دیا جو ہفتر کے دستوں میں شامل ہو کر سامنے آن کھڑے ہوئے، جس کا مطلب تھا ایک بار پھر شامی، شامیوں کے خلاف ہی لڑ رہے تھے لیکن اس بار کسی اور کی جنگ، کسی اور زمین پر۔

'ابتدائی دنوں میں صورت حال نہایت سنگین تھی۔ ہفتر کے دستے طرابلس کی طرف پیش قدمی کر رہے تھے اور مجھے ہر وقت اپنی گرفتاری کا دھڑکا لگا تھا۔'

 معاملات مزید اس وقت بدتر ہوئے جب احمد پر منکشف ہوا کہ یورپ جانا ممکن ہی نہیں۔

وہ کہتے ہیں پھر کرایہ کش سپاہیوں کے لیے موسم خزاں میں آذربائیجان میں جا کر ناگور نو کار اباخ کی جنگ میں شرکت جیسے نئے مواقع پیدا ہوگئے (جس کا ترکی انکار کرتا ہے)، لیکن انہوں نے یہ پیشکش ٹھکرا دی۔

ان کے بقول: 'میرا دوست چلا گیا جو وہاں پہنچنے کے 15 دن بعد بری طرح زخمی ہو گیا اور اس کے علاوہ کئی دیگر وہاں قدم رکھتے ہی چند گھنٹوں کے اندر مارے گئے۔'

انہی دنوں وہ شام میں ترکی کی مداخلت سے رفتہ رفتہ بد ظن ہو گئے۔

وہ انڈپینڈنٹ کو تلخ لہجے میں بتاتے ہیں کہ 'وہ شامی حکومت بچانے کے لیے وہاں ہیں۔'

 'اسلامک سٹیٹ اور حیات تحریر الشام ( القاعدہ سے جڑا ہوا ایک عسکری گروہ) کے ساتھ تعاون سے لے کر شام میں دہشت گردوں کے داخلے کے لیے اپنی سرحدیں کھولنے تک ترکی کی تمام حرکات و سکنات اس نقطہ نظر کی توثیق کرتی ہیں۔'

مستقبل

تہانی کی طویل داستان تین نومبر 2015 میں اس وقت کسی نتیجے کے قریب پہنچی جب انہوں نے جرمنی داخل ہو کر پناہ کے لیے درخواست دائر کر دی۔

اس وقت دو بچوں کی ماں تہانی نے بہت جلد جرمن زبان سیکھ لی اور مترجم بن گئیں، لیکن اپنے کھوئے ہوئے ہر دلعزیز افراد بالخصوص لاپتہ ماں کی یاد اب بھی انہیں ستاتی ہے جن کے متعلق شاید انہیں کبھی کوئی خبر نہ مل سکے گی۔

'اگرچہ میں بہت رجائیت پسند نہیں لیکن اگر مجھے اس سب سے دوبارہ گزرنا پڑے تو میں وہی کروں گا جو پہلے کیا، ان کے وقار کے لیے لڑنے پر مجھے کوئی پچھتاوا نہیں۔'

احمد جو اپنی تعلیم مکمل کرنے سے محروم رہے اور تقریباً آدھی زندگی بطور جنگجو گزار دی، ابھی تک اس کوشش میں لگے ہیں کہ کسی طرح یورپ پہنچ سکیں۔ اس وقت وہ ادلب میں پھنسے ہوئے ہیں جو ممکنہ طور پر جنگ کا حتمی اور پر تشدد ترین معرکہ ہو گا۔

شام میں ان کے لیے کچھ بھی باقی نہیں بچا لیکن ان کے بقول انہیں کوئی پشیمانی نہیں۔

'شام میں انقلاب کا خواب بظاہر شاید ختم ہو چکا ہے لیکن ہمارے دل میں ابھی تک زندہ ہے۔'

© The Independent

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا