پاکستان کے سابق کپتان اور مایہ ناز آل راؤنڈر شاہد آفریدی کی سوانح عمری شائع ہو چکی ہے جس کے مصنف آفریدی اور صحافی وجاہت سعید خان ہیں۔
ویسے تو کتاب میں لکھی گئیں کئی متنازع باتیں میڈیا کی زینت بن چکی ہیں، وہیں اس میں کچھ ایسے دلچسپ واقعات بھی ہیں جنہیں پڑھ کر پاکستانی کرکٹ شائقین محظوظ ہوں گے۔
جملے بازی نہیں کروں گا
بھارت کے دورہِ پاکستان سے پانچ سال پہلے دونوں ملکوں کی فوجیں کارگل کے پہاڑوں پر ایک دوسرے سے نبردآزما تھیں۔
ان حالات میں بھارتی ٹیم کا دورہ امن کے تسلسل کے لئے انتہائی اہمیت کا حامل تھا۔ ساتھ ہی یہ پاکستان کی مہمان نوازی کا بھی امتحان تھا۔
آفریدی لکھتے ہیں کہ پاکستان اس امتحان میں کامیاب رہا، جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستانی کپتان انضمام الحق اور عظیم بھارتی کھلاڑی سچن ٹنڈولکر مشترکہ طور پر پولیو کے خاتمے کے لئے ایک اشتہاری مہم کا حصہ بنے۔
علاوہ ازیں، بھارتی ٹیم کو کراچی میں پہلا ایک روزہ میچ جیتنے پر جو عوامی شاباشی ملی وہ اپنی مثال آپ تھی۔
آفریدی اس بات کا بھی انکشاف کرتے ہیں کہ اس اہم سیریز کی خاطر انہوں نے اپنی سلیجنگ (مخالف کھلاڑیوں پر فقرے کسنا) کی عادت کو بھی بالائے طاق رکھ دیا تھا۔
مہمان ٹیم کی خاطر داری میں کوئی کمی نہیں چھوڑی گئی۔ اُس وقت کے صدر پرویز مشرف نے مہمان ٹیم کو اپنے گھر چائے پر دعوت دی اور پاکستانی میڈیا نے بھی بھارتی ٹیم کو خوب سراہا۔
جہاں کچھ سال قبل دونوں ملک ایک دوسرے سے جنگ لڑ رہے تھے، وہیں اس سیریز میں کھلاڑی کچھ یادگار لمحات گزار رہے تھے۔
آفریدی نے اپنی مہمان نوازی کی روایت برقرار رکھتے ہوئے بھارتی ٹیم کو اپنے گھر کھانے پر مدعو کیا، مگر کھانوں کے معاملے میں تھوڑی لاپروائی برت گئے۔
آفریدی لکھتے ہیں کہ انہیں اس بات کا خیال ہی نہ رہا کہ بھارتی کھلاڑی سبزی پسند کریں گے جبکہ دعوت میں بھرپور گوشت پکایا گیا۔
بہرحال، معاملے کو ہنگامی بنیاد پر حل کرتے ہوئے مہمانوں کے لیے دال اور پالک کا اہتمام کیا گیا۔
قومی مفاد میں چوکا
آفریدی نے اپنی کتاب میں انکشاف کیا کہ اگر وہ کرکٹر نہ ہوتے تو پاکستان فوج کے سپاہی ہوتے۔
انہوں نے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو مضبوط اعصاب کا حامل سپہ سالار قرار دیتے ہوئے ایک یادگار واقعہ بیان کیا۔
کچھ سال پہلے آفریدی ایک کرکٹ اکیڈمی کا افتتاح کرنے فاٹا گئے تھے جہاں جنرل راحیل ان کے ہمراہ مہمان خصوصی کی حیثیت سے موجود تھے۔ پروگرام کے آغاز میں کچھ دیر باقی تھی جب جنرل صاحب نے آفریدی سے دریافت کیا کہ کھیل شروع ہونے میں مزید کتنی دیر ہے؟ جس پر آفریدی نے کہا ’کھیل تب تک شروع نہیں ہو گا جب تک آپ میری بولنگ کا سامنا نہیں کریں گے۔‘
اس پر جنرل راحیل نے فوراً آفر قبول کرتے ہوئے کہا کہ آفریدی چوکا کھانے کے لیے تیار رہیں۔
آفریدی لکھتے ہیں یہ بات سننے کہ بعد انہوں نے قومی مفاد میں جنرل صاحب کو ایک آسان گیند کرائی جسے سابق آرمی چیف نے زوردار شاٹ لگا کر باؤنڈری کے پار پہنچا دیا ۔
میلبرن کا نائٹ کلب
ایک دفعہ کا ذکر ہے جب پاکستان ٹیم آسٹریلیا کے دورے پر تھی۔ آفریدی اس دورے کے دوران نائٹ کلب میں گزری ایک شام کو یاد کرتے ہیں۔
وہ لکھتے ہیں کہ زیادہ تر لڑکے کسی نہ کسی لڑکی کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے محظوظ ہو رہے تھے تو وہ بھی میلبورن سے تعلق رکھنے والی ایک لڑکی سے باتیں کرنے لگے۔ باتیں کرتے ساری رات گزر گئی اور الوداع کہتے وقت آفریدی نے لڑکی سے کہا کہ انہیں ٹیم کے ساتھ اگلی صبح دوسرے شہر کی فلائٹ پکڑنی ہے، جواب میں لڑکی نے اصرار کیا کہ وہ بھی ان کے ساتھ آنا چاہتی ہیں اور بقیہ دورہ انہی کے ساتھ گزارنا چاہتی ہے۔
وہ سمجھے یہ شاید کوئی مذاق ہے اور انہوں نے ہامی بھر لی۔ آفریدی کے لئے یہ بات کسی صدمے سے کم نہ تھی جب انہوں سے اس لڑکی کو اگلے دن ائیرپورٹ پر ٹکٹ کے ہمراہ دیکھا۔
آفریدی لکھتے ہیں وہ اس لڑکی کو پہچاننے سے قاصر تھے ،اس موقع پر ساتھی کھلاڑی ثقلین مشتاق نے انہیں یاد دلایا کہ یہ وہی لڑکی ہے جو رات کو آفریدی کے ساتھ نائٹ کلب میں موجود تھی۔
آفریدی کہتے ہیں کہ میک اپ انسان کو یکسر بدل دیتا ہے اور یہاں بھی ایسا ہی ہوا کیونکہ یہ لڑکی صبح میک اپ نہ ہونے کی وجہ سے پہچاننے میں نہیں آ رہی تھی۔
پشاور سے آئی دلہن
آفریدی لکھتے ہیں ایک مرتبہ ان کے گھر کے دروزے کی گھنٹی بجی اور پتہ چلا کہ کچھ لوگ ان سے ملنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے جواب بھجوانا چاہا کہ وہ نہیں مل سکتے مگر ان کی والدہ نے کہا گھر آئے مہمانوں کو واپس نہیں بھیجتے۔ والدہ کے حکم کے بعد آفریدی کو دروازے پر جانا پڑا جہاں دو لڑکیاں موجود تھیں۔
اپنا تعارف کرانے کے بعد ان لڑکیوں نے کہا کہ ان کی گاڑی میں کوئی بیٹھا ہوا ہے جو آفریدی سے ملنے کی خواہش رکھتا ہے۔
جب آفریدی ان کی گاڑی تک پہنچے تو دیکھا اس میں ایک دلہن تیار بیٹھی ہے۔ وہ سمجھے شاید یہ لڑکی اپنی شادی سے قبل ان کے ساتھ تصویر بنوانا چاہتی ہے مگر حقیقت کچھ اور تھی۔ دلہن کے لباس میں بیٹھی لڑکی نے آفریدی سے مخاطب ہو کر کہا: ’شاہد، میں پشاور سے آئی ہوں اور شادی کے لیے تیار ہوں۔ میں آپ کی بیوی بننا چاہتی ہوں۔ آؤ مسجد چلیں اور نکاح کر لیں‘۔
یہ سنتے ہی آفریدی پریشان ہو گئے اور لڑکی سے کہا وہ ابھی شادی کے لیے کافی چھوٹے ہیں اور ان کا شکریہ ادا کر کے روانہ کیا۔
لڑکے نے لڑکی کے روپ میں بے وقوف بنا دیا
کتاب میں ایک جگہ پر آفریدی لکھتے ہیں کہ 1990 کی دہائی میں جب موبائل فون عام ہونا شروع ہوئے تو ایک لڑکی انہیں خوب کالز کیا کرتی۔
وہ کہتے ہیں کہ اس لڑکی کی آواز بہت خوبصورت تھی اور وہ گھنٹوں ان سے باتیں کیا کرتے تھے۔ شروع میں صرف لڑکی ہی کال کرتی تھی مگر بعد میں وہ بھی کال کرنے لگے۔
آفریدی لکھتے ہیں اس وقت وہ شادی شدہ نہیں تھے تو اس لڑکی کو عید پر اپنے گھر پر دعوت دی تاکہ والدین سے ملوا سکیں۔
عید کا دن آیا تو آفریدی کافی بے چین تھے۔ جیسے ہی دروازے پر گھنٹی بجی تو وہ خود دروازہ کھولنے پہنچے۔ جیسے ہی دروازہ کھولا تو ایک 15یا 16سال کے لڑکےکو ہاتھ میں گلاب کا پھول پکڑے دیکھ کر کافی پریشان ہوئے۔
جب دریافت کیا تو یہ سن کر پیروں تلے زمین کھسک گئی کہ وہ جسے لڑکی سمجھ کر باتیں کرتے تھے دراصل یہی نوجوان تھا۔ آفریدی لکھتے ہیں کہ اپنے اس طرح بے وقوف بننے پر وہ بہت شرمندہ ہوئے۔
شاہد آفریدی کی سوانح عمری شائع ہو چکی ہے اور اس کی کاپیاں پاکستان میں موجود مختلف بک سٹورز پر دستیاب ہیں۔