لاہور سروسز ہسپتال کے او پی ڈی میں داخل ہوئے تو ہال میں صرف خالی کرسیوں نظر آئیں، ان گنت کرسیوں میں سے دو پر ایک خاتون اپنی بچی کے ساتھ بیٹھی تھی۔ بچی نے منہ پر سبز رنگ کا ماسک پہن رکھا تھا اوروقفے وقفے سے کھانس رہی تھی۔
معلوم کرنے پر پتا چلا کہ یہ بخار میں مبتلا 10 سالہ کوثر ہے جو اپنی والدہ عظمیٰ کے ساتھ تقریباً 170 کلو میٹر دور حویلی لکھا، اوکاڑہ سے لاہور آئی ہے۔
پہلے وہ چلڈرن ہسپتال گئے تو پتہ چلا کہ کوثر کو ٹی بی ہے اورانہیں سروسز ہسپتال بھیج دیا گیا جہاں یہ گذشتہ تین روز سے کسی ڈاکٹر کی متلاشی ہیں تاکہ کوثر کی ٹی بی کا علاج شروع ہو سکے۔
عظمی نے انڈپنڈینٹ اردو کو بتایا کہ انہیں تین دنوں میں صرف بخار کی دوائی ملی ہے اور کچھ نہیں، ڈاکٹر کا انتظار کرتے ہیں مگر ابھی تک کسی ڈاکٹر نے ان کی بیٹی کو علاج کے غرض سے نہیں دیکھا۔
عظمٰی کو امید ہے کہ ڈاکٹروں کی ہڑتال پیر تک ختم ہو جائے گی تو اس کی بھی سنی جائے گی کیونکہ گھر سے دور ایک دوسرے شہر میں بیٹی کے ساتھ اکیلے رہنا انہیں پریشان کر رہا ہے۔
کوثر اور ان کی والدہ اکیلی نہیں بلکہ ان جیسے ہزاروں مریض پنجاب بھر کے سرکاری ہسپتالوں میں تین روز سے جاری ینگ ڈاکٹرز کی ہڑتال کے باعث طویل انتظار کر کے واپس چلے جاتے ہیں یا قریب ہی کہیں ٹھکانہ کر لیتے ہیں۔
ڈاکٹروں کی یہ ہڑتال ایم ٹی آئی ایکٹ یعنی میڈیکل ٹیچنگ انسٹی ٹیوشنز ایکٹ کے خلاف ہے۔
ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن، میو ہسپتال کے انفارمیشن سیکریٹری ڈاکٹر عمران شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایکٹ کے تحت ہر سرکاری ہسپتال میں انتظامی ڈھانچہ تبدیل کرتے ہوئے وہاں بورڈ آف گورنرز بنایا جائے گا، جس کے اراکین کا تعلق عدلیہ، فوج اور بیوروکریسی سے ہوگا۔
ڈاکٹر عمران کے مطابق، ان اراکین کو ون لائن بجٹ دے دیا جائے گا اور یہ ہسپتال سے ہی ریونیو پیدا کریں گے جس کی وجہ سے ہسپتال میں داخلہ پرچی کے پیسے بھی ہوں گے، اس کے علاوہ مفت ٹیسٹ کی سہولت ختم کر دی جائے گی اور سینئر ڈاکٹروں کو شام کے وقت سرکاری ہسپتالوں میں پرائیویٹ پریکٹس کی اجازت ہوگی۔
ڈاکٹر عمران نے بتایا کہ پہلے ہی سرکاری ہسپتالوں میں ایک بستر پر تین تین مریض لیٹتے ہیں اگر پرائیویٹ مریض بھی یہاں داخل ہوں گے تو کیا بنے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس ایکٹ کے تحت ڈاکٹر، پیرا میڈیکل سٹاف، نرسز وغیرہ کو تین، تین سال کے کنٹریکٹ پر رکھا جائے گا جس کی وجہ سے انہیں کوئی سوشل سکیورٹی بینیفٹس نہیں ملیں گے۔
ڈاکٹر عمران کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا میں بھی اس ایکٹ کے خلاف ہڑتالیں کی جا رہی ہیں اور یہاں بھی جاری رہیں گی۔
ہسپتالوں کے او پی ڈی بند کیے جانے کے سوال پر ڈاکٹر عمران کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر جو بھی کر رہے ہیں وہ مریضوں کی بھلائی کے لیے کر رہے ہیں، جب تک حکومت اپنا فیصلہ واپس نہیں لیتی ہڑتال جاری رہے گی۔
انہوں نے کہا اگر مریض او پی ڈی بند ہونے کی صورت میں تکلیف اٹھا رہے ہیں تو اس کی ذمہ داری وزیر صحت پر آتی ہے، ڈاکٹروں کی بڑی تعداد نے تبدیلی کے لیے پی ٹی آئی کو ووٹ دیا تھا مگر انہیں نہیں پتا تھا کہ یہ تبدیلی انہی کے خلاف ہو گی۔
دوسری جانب، وزیر صحت پنجاب ڈاکٹر یاسمین راشد نے ہڑتال کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا جب آپ پر چیک اینڈ بیلنس رکھنے کی کوشش کی جائے تو ایسا ردعمل سامنے آتا ہے، جیسا اس وقت ڈاکٹروںکا آ رہا ہے۔
انہوں نے واضع الفاظ میں بتایا کہ اس ایکٹ کے تحت بورڈ آف گورنرز میں شامل لوگوں کا تعلق پرائیویٹ سیکٹر سے ہوگا نہ کہ سرکاری یا نیم سرکاری اداروں سے، اس میں وہ لوگ شامل کیے جائیں گے جنہیں ٹیکس ادا کرنے والوں کے پیسے کی فکر ہو گی۔
ان کا کہنا تھا کہ بورڈ آف گورنرز کو سات سے آٹھ ارب روپے کا ون لائن بجٹ دیا جائے گا جسےہسپتال کے لیے ایک سال میں استعمال کرنا ہوگا، اس کا نقصان صرف یہ ہوگا کہ اب ڈاکٹر کوئی گڑبڑ نہیں کر سکیں گے اور بجٹ کی رقم کہاں اور کیسے استعمال ہوئی اس کی پوچھ گچھ کی جائے گی۔
وزیر صحت کا کہنا تھا کہ جہاں تک پرائیویٹ پریکٹس کی بات ہے تو اس سے بھی سرکاری ہسپتالوں کا ہی ریوینیو بڑھے گا۔
ڈاکٹر یاسمین راشد نے سوال کیا کہ کیا یہ اچھا ہو گا کہ ڈاکٹر سرکاری ہسپتال کے مریض اپنے پاس پرائیویٹ سیکٹر میں لے جائیں اور پیسہ بنائیں یا یہ بہتر ہو گا کہ وہ سرکاری ہسپتال میں ہی مریض چیک کریں اور انہیں کم پیسوں میں پرائیویٹ سیکٹر کی سہولیات ملیں۔
انہوں نے بتایا کہ حکومت پرائیویٹ پریکٹس کرنے والے ڈاکٹروں کی ایک فیس مقرر کرے گی اور جو سفید پوش لوگ پرائیویٹ ہسپتال کی سہولیات حاصل نہیں کر سکتے وہ سرکاری ہسپتال میں کم پیسوں میں ایسی سہولیات حاصل کر سکیں گے۔
ان کا کہنا ہے کہ کوئی خاص ہڑتال نہیں ہو رہی ، ہسپتالوں میں کام چل رہا ہے، ویسے بھی ڈاکٹروں کی ہڑتال کا جواز نہیں بنتاکیونکہ ایم ٹی آئی کی تجویز ابھی سٹینڈنگ کمیٹی میں جانی ہے اور ڈاکٹروں کو چاہیے کہ وہ اپنے تحفظات سٹینڈنگ کمیٹی میں پیش کریں۔