سپریم کورٹ آف پاکستان نے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 75 ڈسکہ میں 10 اپریل کو دوبارہ ہونے والے ضمنی الیکشن کو موخر کرنے کا حکم دیا ہے۔
جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں جمعرات کو ہونے والی سماعت میں سپریم کورٹ نے 11 اپریل تک ڈسکہ میں دوبارہ انتخابات روکنے کی ہدایت کی۔
واضح رہے کہ الیکشن کمیشن نے ڈسکہ میں دوبارہ انتخابات کے لیے پہلے 18 مارچ کی تاریخ دی اور بعد میں انتخابات کی نئی تاریخ 10 اپریل مقرر کی تھی۔
این اے 75 ڈسکہ میں دوبارہ انتخابات کے حوالے سے کیس کی سماعت کے دوران جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ’سوال یہ ہے کہ پولنگ کے دن کون اور کیوں یہ مسائل پیدا کرتا رہا؟ کیا ایک امیدوار طاقتور تھا اس لیے دوسرے نے یہ حرکات کروائیں؟‘
عدالت نے واضح کیا کہ موجودہ کیس کے فیصلے میں وقت درکار ہے اور الیکشن کمیشن کا پولنگ کا فیصلہ برقرار ہے۔ ’فی الحال 10 اپریل کا فیصلہ ملتوی کر رہے ہیں۔ سلمان اکرم راجہ کے دلائل ابھی جاری ہیں، نوشین افتخار کے علاوہ باقی فریقین کو بھی سننا ہے۔‘
گذشتہ سماعت میں تحریک انصاف کے امیدوار اسجد ملہی کے وکیل کے دلائل مکمل ہو چکے تھے جبکہ اس سے قبل الیکشن کمیشن کے وکیل عبدالرؤف بھی دلائل دے چکے تھے۔ مسلم لیگ ن کی امیدوار نوشین افتخار کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے گذشتہ روز دلائل شروع کیے تھے۔
لیکن گذشتہ روز عدالت نے سلمان اکرم راجہ کو مکمل تیاری کے ساتھ دلائل دینے کی ہدایت کی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سلمان اکرم راجہ نے جمعرات کو دلائل کے دوران عدالت میں ڈسکہ کا مکمل نقشہ پیش کر دیا اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے سلمان اکرم راجہ سے کہا کہ ’آپ نے تو ایک دن میں بہت زیادہ تیاری کر لی ہے۔‘
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ڈسکہ شہر میں 76 پولنگ سٹیشنز ہیں جن میں سے 34 پولنگ سٹیشنز سے شکایات آئیں ہیں۔ الیکشن کمیشن نے 34 پولنگ سٹیشنز کی نشاندہی کی ہے۔ اس کے علاوہ 20 پریزائڈنگ افسر بھی غائب ہوئے تھے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ 10 پولنگ سٹیشنز پر پولنگ کافی دیر معطل رہی۔
سلمان اکرم راجہ نے عدالت کو بتایا کہ ڈسکہ سے نوشین افتخار کے والد پانچ بار منتخب ہو چکے ہیں۔ ڈسکہ میں نوشین افتخار کے خاندان کا اثرورسوخ زیادہ ہے۔ نوشین افتخار کے ڈسکہ شہر سے 46 ہزار جبکہ پی ٹی آئی امیدوار کے 11 ہزار ووٹ تھے۔ ’ڈسکہ شہر میں پولنگ کا عمل متاثر کرنا ان کا مقصد تھا۔‘
جسٹس عمر عطا بندیال نے نکتہ اٹھایا کہ ڈسکہ میں مسلم لیگ ن کے کارکنان نے پرتشدد واقعات شروع کیے۔ ’جب مسلم لیگ ن کا اثرورسوخ زیادہ تھا تو تشدد اور بد امنی پھیلانے کی ضرورت کیوں پڑی؟ آپ الیکشن کے نتائج سے خوش تھے اس پر کوئی اعتراض نہیں اٹھایا۔‘
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ الیکشن کے نتائج کے خلاف درخواست بھی کمیشن میں دائر کی گئی تھی۔ ڈسکہ شہر میں دیہات کے مقابلے میں ٹرن آؤٹ روایتی طور پر زیادہ ہے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ کو ثابت کرنا ہے کہ 23 پولنگ سٹیشن کی شکایت پر پورے حلقے میں دوبارہ انتخابات کیوں ضروری ہیں؟
جسٹس منیب اختر نے بھی سوال کیا کہ جب پریزائڈنگ افسر پولنگ سٹیشنز سے نکلے تو ان کی رخصتی معمول کے مطابق تھی؟
سلمان اکرم راجہ نے عدالت کے سوالات پر بتایا کہ پریزائڈنگ افسران پولیس کے ساتھ معمول کے مطابق نکلے تھے لیکن پیزائڈنگ افسران کی واپسی غیر معمولی تھی، وہ اکھٹے آئے اور ڈرے ہوئے تھے۔
عدالت نے مزید دلائل کے لیے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی اور کہا کہ کیس کی مزید سماعت بینچ کی دستیابی سے مشروط ہوگا جیسے ہی بنیچ دستیاب ہوگا کیس سماعت کے لیے مقرر کر دیں گے۔