’سنا ہے کہ برسوں بعد سیدو شریف ایئر پورٹ دوبارہ کھل رہا ہے یقین جانیے میں نے شکر کے دو رکعت نفل ادا کیے ہیں‘۔ یہ کہنا تھا نعیم الحق کا، جن کا تعلق سوات کی تحصیل خوازہ خیلہ سے ہے اور وہ پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی سے سینیئر سپرٹنڈنٹ، فائر اینڈ سیفٹی کے حیثیت سے ریٹائر ہوئے ہیں۔
نعیم الحق کا شمار ان علمبرداروں میں ہوتا ہے جنہوں نے سوات سیدو شریف ائیر پورٹ کی ابتدا سے دیکھ بھال کی اور اس کو دنیا کا خوبصورت ترین ایئر پورٹ بنانے کا خواب دیکھا۔
سیدو شریف ایئر پورٹ 17 سال بعد دوبارہ فعال ہو رہا ہے جو کہ خیبرپختونخوا حکومت کے سیاحت کے فروغ کے عزم میں معاون ثابت ہوگا، جبکہ مقامی صنعتوں اور سوات کے تازہ پھلوں کی ملک بھر میں بروقت ترسیل سے مقامی معیشت مزید بہتر ہو سکتی ہے۔
یہ ایئرپورٹ 1979میں آپریشنل کیا گیا تھا، اس وقت اس ایئر پورٹ سے پشاور کے لیے 98 روپے ٹکٹ جبکہ اسلام آباد کے لیے 125 روپے کا ٹکٹ ہوا کرتا تھا۔
اس ایئر پورٹ کے بننے کے پانچ سال بعد 1984 میں نعیم الحق سوات سے تعلق رکھنے والے وہ پہلا شخص تھے جن کی پوسٹنگ سیدو شریف ایئرپورٹ ایک افسر یعنی فائر لیڈر انچارج کی حیثیت سے ہوئی۔
نعیم الحق کے مطابق وہ سیدو شریف ایئرپورٹ کو اپنا گھر سمجھتے تھے اور ایک افسر ہونے کے باوجود اس ایئر پورٹ کو خود پینٹ کرتے تھے۔
پہلی بار 1993 میں نامعلوم وجوہات کی بنا پر یہ ایئر پورٹ کچھ وقت کے لیے بند ہوا۔ بعد میں کھول دیا گیا، جبکہ اس ایئرپورٹ کو دوبارہ پھر سے بند ہونا پڑا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نعیم الحق کے مطابق یہ 2003 کو بند ہوا یعنی 18 سال پہلے جبکہ صحافی طاہر عمران میاں کہتے ہیں کہ اس ایئرپورٹ کو 2006 میں بند کیا گیا تھا، اسی طرح پی آئی اے کے مطابق 2007 میں اس ایئر پورٹ کو دوبارہ بندہ ہونا پڑا تھا۔
اس ایئرپورٹ کے بند ہونے کی تاریخ اور اس کے بند ہونے کی وجہ پر اب بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔
تاہم نعیم الحق کہتے ہیں کہ ’یقین جانیے کہ ہماری آنکھوں میں آنسو آتے تھے اور دل خون کے آنسو روتا تھا کہ یا رب ہماری اتنے گلزار اور جنت نظیر ایئرپورٹ کو کیوں بند کیا گیا۔‘
نعیم نے جب اس ایئرپورٹ کے فعال ہونے کی خبر سنی تو فوراً سے ایئر پورٹ پہنچ گئے۔
انہوں نے بتایا کہ ’میں جب ایئرپورٹ گیا تو اس کے حالات پہلے کی طرح بالکل نہیں تھے، ایئرپورٹ کا جتنا بھی عملہ تھا وہ سب میرے شاگردوں کے شاگرد تھے، تو میں نے ان سب کو گائیڈ کیا کہ کس طرح سے اس ایئر پورٹ کو ہم دوبارہ اپنے شکل میں لا سکتے ہیں۔‘