پشاور کی ایک ذیلی عدالت کے بعد پاکستان کے صوبہ سندھ کے شہر کراچی میں بھی عدالت نے عورت مارچ کے منتظمین و شرکا کے خلاف مقامی پولیس کو فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) درج کرنے کا حکم سنایا ہے۔
کراچی اور پشاور میں سرکاری وکلا اس کیس کی نوعیت کو دیکھنے کے بعد پولیس کو قانونی دفعات سے آگاہ کریں گے، جس کے بعد ہی متعلقہ تھانوں میں ان دفعات کی روشنی میں مقدمات درج کیے جاسکیں گے۔
عدالتوں کی جانب سے عورت مارچ کے خلاف کارروائی کرنے کے احکامات جاری ہونے کے بعد عورت مارچ منتظمین نے بھی 27 مارچ کو ایک پریس ریلیز جاری کیا جس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ ’پشاور اور کراچی میں مقیم وکلا کی جانب سے دائر درخواست میں وہی جھوٹ بولا جارہا ہے جو پچھلے دو ہفتوں سے زیادہ عرصے سے ملک میں گردش کر رہا ہے۔‘
’عورت آزادی مارچ‘ کی جانب سے سوشل میڈیا پر جاری کردہ اس بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس قسم کے پروپیگنڈے پر مبنی قانونی مقدمات ثبوتوں کی مکمل کمی کے سبب عورت آزادی مارچ کو ناقابل بیان خطرات سے دوچار کرنے کے مترادف ہیں۔
پریس ریلیز میں مزید لکھا گیا ہے کہ ’وزیر آعظم کے مشیر برائے مذہبی امور طاہر اشرفی اور وفاقی وزیر فواد چوہدری سمیت سرکاری عہدیداران نے واضح طور پر مطالبہ کیا ہے کہ جعلی اور من گھڑت مواد کو ان لائن شئیر کرنے اور جھوٹے الزامات کو پھیلانے والے عناصر کے خلاف کارروائی کی جائے۔‘
عورت آزادی مارچ نے پشاور اور کراچی میں عدالتوں کی جانب سے پولیس کو ہدایات سے کچھ دن قبل پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کو ایک کھلا خط بھی لکھا تھا جس میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ عورت آزادی مارچ کے خلاف ’بے بنیاد جھوٹ پھیلانے والے افراد کے خلاف کارروائی کی جائے۔‘
مزید برآں، عورت آزادی مارچ کے پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ ان کی مذکورہ تمام کوششوں کے باوجود عدالتوں کی جانب سے ایف آئی ار درج کرانے کا حکم جاری کرنا انتہائی پریشان کن اقدام ہے ، اور یہ کہ ریاست کا ایسا رویہ ابہام کا تاثر دے رہا ہے۔
’وزیر اعظم اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سمیت اعلی سطح کے حکومتی عہدیداروں کو عورت آزادی مارچ اسلام آباد کے خلاف جاری منفی اور خطرناک سیاسی اور قانونی مہم کا نوٹس لینا اور اس کو روکنا چاہیے۔‘
عورت آزادی مارچ کی ایک رضا کار نے نام نہ بتانے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ہر سال کی طرح یوم خواتین کے موقع پر آواز اٹھانے والی خواتین کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے، تاہم اس بار مذہبی کارڈ کا استعمال کرکے عورت مارچ کی منتظمین اور شرکا کو عبرت بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔‘
رضاکار کا مزید کہنا ہے کہ ہر سال پاکستان کے آزادی مارچ میں خواتین کو درپیش حقیقی مسائل پر بات کی جاتی ہے، جس میں ایک حصہ خواتین کے ساتھ جنسی زیادتیوں (می ٹو) اور ہراسانی کے دیگر واقعات پر مشتمل ہوتا ہے۔
’اس ضمن میں ہمیں پاکستان کے مختلف شہروں سے خواتین اپنے ساتھ ہونے والے واقعات کو اپنے دوپٹے یا پلے کارڈ پر لکھ کر بھیجتی ہیں۔ اس سال لاہور میں ہونے والی مارچ میں ایک بینر پر کسی خاتون نے اپنے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتی کا قصہ لکھا تھا، جو کہ لاہور کے اطراف میں کسی گاؤں میں پیش آیا تھا۔ اسی واقعے کو پشاور کی عدالت میں توہین مذہب سے تشبیہ دی گئی ہے۔‘
رضاکار نے بتایا کہ ’بینر پر لکھی گئی کہانی کی مشابہت اتفاق تو ہو سکتی ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔‘
واضح رہے کہ چھبیس مارچ کو پاکستانی میڈیا کی رپورٹس سے یہ تاثر دیا گیا کہ درخواست گزاروں نے اسلام اباد میں ہونے والی ریلی کے خلاف پشاور سے قانونی کارروائی کی درخواست کی ہے۔
تاہم چھبیس مارچ کو پشاور کی ذیلی عدالت کی جانب سے آنے والے فیصلہ جس درخواست کی بنیاد پر ہوا اس میں درخواست گزار وکلا نے لکھا تھا کہ ’متعلقہ غیر اسلامی اور توہین آمیز مواد سائلان نے ضلع پشاور کے احاطہ کچہری میں دیکھے۔‘
اس بیان کو رد کرتے ہوئے حقوق نسواں پر کام کرنے والی تنظیموں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا تھا کہ ’پشاور میں تو عورت آزادی مارچ کے زیر انتظام کوئی تقریب یا ریلی ہوئی ہی نہیں تو عدالت کس طرح پولیس کو مقدمہ درج کروانے کا کہہ سکتی ہے۔‘
اس موضوع پر جب انڈپینڈنٹ اردو نے متعلقہ درخواست گزار وکیل ابرار حسین سے دوبارہ سوال کیا کہ جب پشاور میں کوئی ریلی نہیں ہوئی تو انہوں نے اپنی درخواست میں کچہری کے احاطے کا ذکر کیوں کیا ہے۔ تو انہوں نے کہا ’میں اور میرے ساتھ دوسرے درخواست گزاروں نے کچہری کے احاطے میں اپنے موبائل پر مختلف شہروں میں ہونے والی عورت آزادی مارچ کی کوریج دیکھی۔ پاکستان کا سائبر کرائم قانون مجھے اجازت دیتا ہے کہ جس شہر میں بھی کچھ غلط دیکھوں اس کے خلاف اپنے شہر سے پولیس میں شکایت درج کر سکتا ہوں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کراچی میں جی ایم آرائیں نامی ایک وکیل نے عدالت کو جو درخواست لکھی ہے اس میں بیان دیا گیا ہے کہ انہوں نے کراچی بار ایسوسی ایشن میں اپنے دوسرے ساتھیوں سمیت اسلام آباد سے نشر ہونے والی عورت آزادی مارچ کی نشریات کو ٹیلی وژن سیٹ پر دیکھا، اور ایسے جملے دیکھے جو توہین آمیز تھے۔
عورت آزادی مارچ منتظمین نے اپنے خلاف لگنے والے ان الزامات کو رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ یہ متعدد بار واضح کر چکے ہیں کہ انہوں نے عالمی یوم خواتین کے موقع پر نکالے جانے والے مارچ میں گستاخانہ نعرے نہیں لگائے ۔
ان کا کہنا ہے کہ ہر سال کی طرح اس بار بھی ان کے نعروں میں ردوبدل کرکے پھیلایا جارہا ہے اور نہ صرف خواتین کے حقیقی مسائل کو دبایا جارہا ہے بلکہ ان پر بات کرنے والی خواتین کو خطرات سے دوچار کیاجارہا ہے۔
عورت آزادی مارچ کی منتظمین نے تمام ریاستی اداروں سے اس ضمن میں واضح اقدامات اٹھانے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ ’یہ اقدام اس لیے ضروری ہے کہ پہلے سے خطرناک صورتحال کہیں مکمل طور پر بےقابو نہ ہو جائے۔ سب سے پہلے، ہم خیبر پختونخوا میں پولیس انتظامیہ اور دیگر حکام سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ تسلیم کریں کہ سیکشن بائیس-اے کے تحت جن الزامات پر عدالتی حکم جاری کیا گیا وہ صریحاً جھوٹ اور بدنیتی پر مبنی ہیں، ایف آئی ار درج کرنا بے بنیاد ہے۔ لہذا ہم اس سے متعلق حکام سے تحفظ کا مطالبہ کرتے ہیں۔‘
دوسری جانب عوامی ورکرز پارٹی (اے ڈبلیو پی) نے ’آٹھ مارچ کو منعقدہ عورت آزادی مارچ کے خلاف جاری مہم کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔‘
اے ڈبلیو پی کی وفاقی ، صوبائی قیادت اور کارکنوں نے اسلام آباد میں ترقی پسند سیاسی کارکنوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کا عہد کیا ہے اور ریاستی اداروں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان انتہا پسند عناصر کے خلاف واضح اقدامات اٹھائیں۔