صوبہ خیبرپختونخوا کے جنوبی ضلع کوہاٹ میں چار سالہ بچی حریم فاطمہ کے قتل کے الزام میں ان کی پڑوسن کو گرفتار کرلیا گیا ہے، جنہوں نے پولیس کے سامنے اقبال جرم کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے بچی کا گلا دبا کر قتل کیا ہے، تاہم پوسٹ مارٹم رپورٹ میں جنسی حملے کی نشاندہی سے معاملہ مزید الجھ گیا ہے۔
حریم فاطمہ کے قتل کے 12 گھنٹے بعد لکھی گئی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں ڈسٹرکٹ ہسپتال کوہاٹ کے میڈیکل افسر نے واضح طور پر لکھا تھا کہ بچی کے جسم پر زخموں کے نشانات ہیں، ’جس سے اس شبے کو تقویت ملتی ہے کہ حریم پر جنسی حملہ ہوا ہے۔‘
علاوہ ازیں پوسٹ مارٹم رپورٹ میں بچی کی ناک، چہرے، گلے، رانوں اور گھٹنوں پر بھی زخموں کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ حریم کی موت پانچ سے دس منٹ کے دورانیے میں گلا گھونٹنے سے ہوئی۔
کوہاٹ کی رہائشی حریم فاطمہ 24 مارچ کو خٹک کالونی سے دن دو بجے گھر سے لاپتہ ہوئی تھی، جس کے بعد بچی کے دادا فرہاد حسین نے محمد ریاض شہید تھانے میں گمشدگی کی اطلاع دی تھی۔ بعد ازاں حریم کی لاش اگلے دن گھر سے ایک کلومیٹر کے فاصلے پر ایک نالے کے پاس برآمد ہونے کے بعد نامعلوم افراد کے خلاف دفعہ 302 اور دفعہ 35 چائلڈ پروٹیکشن ایکٹ کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی اور 100 سے زائد افراد کو شک کی بنیاد پر گرفتار کیا گیا۔
حریم فاطمہ کی موت اور اعلیٰ حکام کی دلچسپی کے بعد پولیس ملزمان کی تلاش میں سرگرداں رہی اور 29 مارچ کو انہیں ایک ایسی سی سی ٹی وی فوٹیج ملی، جس میں ایک برقع پوش خاتون کو مقتولہ کی انگلی پکڑے ساتھ لے جاتے ہوئے دیکھا گیا۔
کوہاٹ پولیس کے ترجمان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ سی سی ٹی وی فوٹیج میں نظر آنے والی خاتون مقتول بچی کے پڑوس میں رہتی تھیں۔
اس بات کی تصدیق کے لیے جب انڈپینڈنٹ اردو نے بچی کے دادا فرہاد حسین سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ فوٹیج میں نظر آنے والی خاتون کی چال ڈھال، قد اور جسامت ان کی پڑوسن سے ملتی ہے، تاہم انہوں نے کہا کہ انہیں حیرانی اس بات پر ہے کہ بچی کی گمشدگی سے تدفین تک ملزمہ ان کے گھر ماتم کرتی رہیں اور گھر والوں کی ڈھارس بندھاتی رہی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دوسری جانب ملزمہ نے پولیس کے سامنے اقبال جرم کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے بچی کا قتل گلا دبا کر کیا ہے، تاہم پولیس یہ جاننے کی کوشش کر رہی ہے کہ اگر ملزمہ نے گلا دبایا تو جنسی حملہ کس نے کیا، کیونکہ ملزمہ پولیس کو یہی وضاحت دے رہی ہیں کہ ان کے ساتھ شریک جرم کوئی نہیں ہے۔
پولیس ابھی تک یہ معلوم کرنے میں ناکام رہی ہے کہ ملزمہ نے بچی کا قتل کیوں کیا، البتہ فرہاد حسین نے بتایا کہ ان کی متعلقہ خاتون یا ان کے خاندان سے کسی قسم کی رنجش یا دشمنی نہیں تھی۔
بقول فرہاد حسین: ’خاتون اپنے جرم کا اقرار کر چکی ہیں لیکن پریشانی کی بات یہ ہے کہ پولیس ابھی تک یہ اگلوانے میں ناکام ہے کہ انہوں نے یہ قتل کیوں، کیسے اور کس کی ایما پر کیا۔‘
فرہاد حسین نے مزید بتایا کہ انہیں پولیس کی اعلیٰ قیادت اور سیاسی حکام کی نیت پر کوئی شک نہیں ہے لیکن حریم فاطمہ ریاست کی بیٹی تھی اور اس کے اصل قاتلوں کا سراغ لگانا اور ان کو کیفر کردار تک پہنچانا ان کی ذمہ داری ہے۔
خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ محمود خان کے معاون خصوصی کامران بنگش نے بھی گذشتہ روز حریم کے گھر والوں سے تعزیت کی اور ان کے ساتھ ہر ممکن حکومتی تعاون کا یقین دلایا۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ خاتون کے علاوہ کچھ دیگر ملزمان بھی زیر تفتیش ہیں، جن میں کچھ رکشہ ڈرائیور بھی شامل ہیں۔
کامران بنگش نے کہا کہ ’صوبائی حکومت بچوں کے تحفظ کو ہر طرح سے یقینی بنا رہی ہے۔ حریم فاطمہ کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچائیں گے اور ان کی گرفتاری تک حکومت چین سے نہیں بیٹھے گی۔‘
پولیس تفتیش میں شامل دیگر ملزمان میں وہ رکشہ ڈرائیور بھی شامل ہے جنہوں نے ملزمہ کو بچی کے اغوا کے وقت گھر سے ایک کلومیٹر کے فاصلے پر واقع کوہاٹ ٹیکسٹائل مل کے علاقے میں اتارا تھا۔ اس دوران قریب واقع اسلامیہ کالج ہاسٹل کے سی سی ٹی وی کیمروں میں یہ فوٹیج ریکارڈ ہوئی۔
مقتولہ کے دادا نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہوں نے یا ان کے قبیلے نے ابھی تک کسی قسم کا احتجاج یا پریس کانفرنس اس لیے نہیں کی کہ انہوں نے تمام ذمہ داری پولیس اور حکومت کے اعلیٰ حکام کو سونپی ہے، تاہم انہوں نے کہا کہ ان کے قبیلے کی خواتین ارادہ ظاہر کر رہی ہیں کہ اگر انصاف کا حصول جلد ممکن نہ ہو سکا تو وہ خود احتجاج کے لیے نکلیں گی۔