’دو یتیم بھتیجیوں کی شادی کے لیے قرض لیا، ان کا جہیز خریدا۔ جمعرات کی رات شادی طے تھی، سب تیاریاں مکمل کر چکے تھے۔ مقامی شادی ہال میں پندرہ دن پہلے بکنگ کروا کے 40 ہزار روپے ایڈوانس بھی دے چکے تھے، لیکن تین دن پہلے معلوم ہوا کہ کرونا کے بڑھتے کیسوں کی وجہ سے شادی ہال بند کیے جارہے ہیں۔‘
یہ داستان ہے لاہور کے علاقہ دھرم پورہ کے رہائشی امجد اقبال کی جو اپنی یتیم دو بھتیجیوں کی شادی کرنا چاہتے ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں امجد اقبال نے بتایا کہ جب بندش کی خبر کے بعد شادی ہال والوں سے دو دن پہلے رابطہ ہوا تو انہوں نے جواب دیا کہ پابندی کے باعث انتظام نہیں ہوسکے گا، لہذا شادی کی تاریخ بڑھالیں اور 11 اپریل کے بعد رکھیں۔
’جب لڑکے والوں سے رابطہ کیا تو ان کے والد نے کہا کہ انہیں کوئی اعتراض نہیں، دعوت نامے تقسیم ہوچکے ہیں، لہذا ہم اپنے رشتے داروں کو شادی کی تقریب موخر کرنے کی اطلاع دے دیں گے، لیکن شادی دھوم دھام سے ہی کریں گے۔‘
امجد کے مطابق: ’وقت پر شادی بھی نہیں ہوئی اور شادی ہال والوں کو جو ایڈوانس کی رقم جمع کروائی تھی، وہ بھی واپس نہیں ملی۔ ہال انتظامیہ کا کہنا ہے کہ وہ پابندی ختم ہونے کے بعد تقریب رکھ لیں۔‘
ساہیوال کے علاقے فرید ٹاؤن کے رہائشی اکبر علی نے بھی اپنے بیٹے کی دعوت ولیمہ منسوخ کر دی کیونکہ جس ہال میں جمعے (دو اپریل) کی بکنگ تھی، پابندی کے باعث انہوں نے معذرت کرلی، لیکن 25 ہزار روپے کا ایڈوانس واپس نہیں دیا گیا اور پابندی کے بعد تقریب کے انعقاد کا مشورہ دیا گیا ہے۔
دیگر شہروں میں بھی یکم سے 11 اپریل تک شادیوں کے لیے ہالوں میں بکنگ کروانے والے افراد پریشان ہیں، کیونکہ ایک تو ان کی تقریب ملتوی ہوگئی، دوسرا بیشتر کو ایڈوانس کی رقم بھی واپس نہیں ملی۔
واضح رہے کہ کرونا وبا کے باوجود گذشتہ کئی ماہ تک شادی ہالوں میں آؤٹ ڈور تقریبات کے انعقاد کی اجازت تھی لیکن اب وائرس کی تیسری لہر کے دوران کیسز کی شرح میں اضافے کے بعد یہ اجازت بھی واپس لے لی گئی ہے اور 11 اپریل تک صوبے میں شادیوں پر مکمل پابندی عائد ہے۔
اس حوالے سے شادی ہالز ایسوسی ایشن لاہور کے صدر میاں محمد الیاس نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ جب سے کرونا وبا آئی ہے، دیگر کاروباروں کی طرح شادی ہالز کا کام بھی شدید متاثر ہوا ہے۔
انہوں نے بتایا: ’صرف لاہور میں چھوٹے بڑے 1400 شادی ہال ہیں، جن میں بڑے ہوٹل شامل نہیں جبکہ ملک بھر میں 14 ہزار سے زائد شادی ہال ہیں اور لاکھوں افراد کا روزگار ان سے وابستہ ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
میاں الیاس کے مطابق: ’شادی ہالوں کا انتظام تقریبات کے لیے جمع ہونے والی رقم پر ہی چلتا ہے۔ جب ہم ایڈوانس لیتے ہیں تو تقریب سے متعلق کھانے کا سامان اور دیگر انتظامات کے لیے متعلقہ افراد کو رقم ادا کر دیتے ہیں تاکہ بروقت ڈیمانڈ کے مطابق انتظامات ہوسکیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’جب پہلے شادی ہال بند ہوئے، تب بھی ایڈوانس واپس کرنا مشکل ہوا اور اس مرتبہ اس سے بھی مشکل ہوگیا ہے کیونکہ اس غیر یقینی صورتحال میں سب کام نقد پر شروع ہوگئے۔‘
بقول میاں الیاس: ’ہر شادی ہال میں ایک ماہ کے دوران مختلف ایام خاص طور پر جمعہ، ہفتہ اور اتوار کو سب سے زیادہ شادیوں کی بکنگ ہوتی ہے۔ اس بار بھی یکم سے 11 اپریل تک بکنگ کروانے والوں کے ایڈوانس جمع ہوئے، جو ہال انتظامیہ واپس کرنے کی پابند تو ہے لیکن تقریبات کے اہتمام کے لیے دیگر لوگوں کو جو ایڈوانس ادا کردیا گیا، وہ ان سے واپس لینا مشکل ہوتا ہے کیونکہ وہ بھی اسی سے روزگار کماتے ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ایڈوانس واپس تو کیے جاتے ہیں مگر اس میں تاخیر فطری ہے جبکہ بیشتر شادی ہال ایسے ہیں جو کرائے کی عمارت میں بنائے جاتے ہیں، لہذا تقریب ہو یا نہ ہو کرایہ مسلسل اور مکمل ادا کرنا پڑتا ہے۔‘
میاں الیاس کا مزید کہنا تھا: ’اس بار چونکہ پابندی یقینی نہیں تھی اور اچانک کرونا کیسز میں اضافہ ہوا تو حکومت کو شادی ہال مجبوری میں بند کروانا پڑے۔ ہمیں اس حساس معاملے کا اندازہ ہے مگر لوگوں کے لیے بھی مشکل ہے، جن کی شادی بھی نہیں ہوئی اور رقم بھی پھنس گئی، لیکن مشکل اور آسان وقت سب کو ایک دوسرے کی مشکلات سمجھ کر گزارنا چاہیے۔‘
ان کے خیال میں پہلے کی طرح شادی ہالوں کو آؤٹ ڈور تقریبات کروانے کی اجازت ملنی چاہیے۔
بقول میاں الیاس: ’ہم تو پہلے بھی کرونا ایس او پیز پر عمل کر رہے تھے، اسے مزید سخت کیا جا سکتا ہے۔ شادی کی تقریبات ملتوی کرنا اور اخراجات واپس لینا کافی مشکل ہوتا ہے۔ اس صورت حال میں حکومت کو بھی تعاون کرنا چاہیے تاکہ لوگ وبا کے باعث دوسرے مسائل سے بچ سکیں۔‘