گوادر میں بیشتر مقامی افراد کا روزگار ماہی گیری سے وابستہ ہے، تاہم قانونی ٹرالنگ کے مسائل سے دوچار ماہی گیروں کو اب ایرانی سرحد کی بندش کے باعث کشتیاں چلانے کے لیے تیل کی قلت کا بھی سامنا ہے۔
واضح رہے کہ گوادر کے ماہی گیر اپنی کشتیاں چلانے کے لیے سمگل ہو کر آنے والے ایرانی ڈیزل کا استعمال کیا کرتے تھے، جو انہیں پاکستان کے مقابلے میں کم قیمت پر ملتا تھا۔
ماہی گیروں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنظیم ’ماہی گیر اتحاد‘ کے رہنما سمجھتے ہیں کہ سرحد سے ایرانی تیل کی بندش نے ماہی گیری کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔
اس تنظیم سے منسلک خدائیداد واجو نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ گوادرمیں اس وقت تقریباً چار ہزار کے قریب سپیڈ بوٹس اور کشتیاں ہیں، جن کو تیل کی ضرورت ہوتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ان کشتیوں کی روزانہ کی ضرورت 20 سے 25 لیٹر تیل ہوتی ہے، جس کا ریٹ موجودہ صورت حال میں ماہی گیروں کو بچت کی بجائے نقصان دے رہا ہے۔
واجو کے بقول: ’پہلے یہ ماہی گیر شکار پر جاتے تھے تو ان کا تیل کا خرچہ 20 فیصد تک ہوتا تھا لیکن اس وقت ایک ماہی گیر کا 50 سے 60 فیصد تک خرچہ تیل پر آتا ہے، جس سے ان کا گزارا مشکل ہوتا جارہا ہے۔‘
ماہی گیر رہنما کے مطابق: ’پہلے ہمیں یہ ایرانی تیل 60 روپے فی لیٹر ملتا تھا جو اب 120 روپے فی لیٹر تک پہنچ گیا ہے۔ گوادر میں سرکاری پیٹرول پمپ موجود ہے، لیکن ایک تو شہر سے دور ہے، دوسرا وہ اپنی ضرورت کے مطابق تیل لاتا ہے۔ اس سے ماہی گیروں کا کوئی مسئلہ حل نہیں ہو رہا ہے۔‘
خدائیداد واجو نے مزید بتایا کہ اپنے مطالبات کے حق میں اور مسائل کو اجاگر کرنے کے لیے انہوں نے احتجاج کے علاوہ پریس کانفرنسز بھی کیں تاکہ حکام بالا اس بات کا نوٹس لیں۔
’گذشتہ دنوں ہم نے گوادر میں کور کمانڈر بلوچستان کی میٹنگ میں شرکت کی تھی، جس میں ڈپٹی کمشنر گوادر بھی موجود تھے، ہم نےاپنا مسئلہ ان کے سامنے رکھا اور انہوں نے یقین دہانی کروائی کہ مسئلہ جلد حل کردیں گے۔‘
خدائیداد نے بتایا کہ ایک ماہ سے زائد عرصے سے سرحد سے تیل کی فراہمی بند ہے جو ماہی گیروں کے لیے تشویش کا باعث ہے۔
ماہی گیروں کے اور کیا مسائل ہیں؟
ماہی گیر رہنما گوادر میں اس شعبے کے لیے سب سے بڑا خطرہ سندھ سے آنے والے غیر قانونی ٹرالنگ کو قرار دیتے ہیں۔
خدائیداد واجو نے بتایا: ’گوادر میں غیرقانونی ٹرالر سندھ سے آتے ہیں جو نہ صرف باریک جالیوں سے شکار کرتے ہیں بلکہ وہ سمندر کی تہہ کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں جو مچھلیوں کی افزائش کے ساتھ ساتھ ماحول کو بھی متاثر کررہا ہے۔‘
دوسری جانب گوادر سے منتخب ہونے والے رکن صوبائی اسمبلی میر حمل کلمتی بھی ماہی گیروں کے اس مسئلے کو اجاگر کرنے میں ان کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ماہی گیر سمندر میں شکار کے لیے نہیں جا سکتے کیوں کہ انہیں سستے داموں تیل نہیں مل رہا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
میر حمل کے بقول: ’گوادر میں پہلے سرحد سے ایرانی تیل آرہا تھا، جسے گذشتہ ایک ڈیرھ ماہ سے بند کردیا گیا ہے، جس نے ماہی گیروں کو گھر میں بیٹھنے پر مجبور کردیا ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’اس وقت گوادر میں ایرانی پیٹرول کی قیمت 120 سے لے کر 140 روپے فی لیٹر تک پہنچ گئی ہے، جو کچھ عرصہ قبل 75 روپے فی لیٹر میں مل رہا تھا جبکہ دوسری طرف گوادر میں صرف دو پیٹرول پمپس ہیں، جہاں پیٹرول 112 روپے فی لیٹر مل رہا ہے۔‘
میر حمل کلمتی کے مطابق: ’یہ مسئلہ نہ صرف ماہی گیروں کا ہے بلکہ گوادر کا ہر شہری اس سے متاثر ہے۔ ماہی گیرکو شکار پر جانے کے لیے ڈیزل لے جانا پڑتا ہے۔ موجودہ صورت حال میں قلت کے باعث وہ سمندر میں دورتک نہیں جاسکتے، جس سے شکار بھی کم ملتا ہے۔‘
میر حمل کلمتی کے مطابق: ’گوادر میں اس وقت تین طبقے کے لوگ روزگار کرتے ہیں جن میں ماہی گیر، سرحد سے کاروبار کرنے والے اور زمیندار شامل ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ’جب ہم نے اس سلسلے میں بات کی تو حکام کا کہنا تھا کہ سرحد کو سکیورٹی وجوہات کی بنا پر بند کیا گیا ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ جہاں یہ مسئلہ ایک طرف ماہی گیروں کے لیے مشکلات کا باعث ہے، وہیں اس سے سیاحت بھی متاثر ہو رہی ہے۔
یاد رہے کہ لسبیلہ سے گوادر کی طرف آتے ہوئے 653 کلومیٹر کے طویل کوسٹل ہائی وے پر کوئی پیٹرول پمپ نہیں ہے۔ اس وقت حب، اوتھل، گوادر، تربت اور لسبیلہ میں پاکستان سٹیٹ آئل کے پیٹرول پمپس موجود ہیں۔
پاکستان سٹیٹ آئل کے اعداد وشمار کے مطابق بلوچستان میں اس وقت 186 پیٹرول پمپس قائم ہیں۔
گو کہ اس وقت ماہی گیر تیل کی بندش سے پریشان ہیں، تاہم ان کے رہنما پرا مید ہیں کہ حکام یہ مسئلہ جلد حل کردیں گے۔