بلوچستان کے ضلع قلات کے قریب کمشنر مکران ڈویژن کی گاڑی کی ایرانی تیل سمگل کرنے والی گاڑی سے ٹکر کے نتیجے میں ہلاکت کے بعد حکومتِ بلوچستان نے صوبے بھر میں ایرانی پیٹرول اور ڈیزل کی سمگلنگ پر پابندی عائد کردی۔
ایران سے متصل بلوچستان کے علاقے ماشکیل کی آبادی 70 ہزار ہے، یہاں روزگار کے مواقعے کم ہونے کے باعث مکینوں کا واحد ذریعہ معاش ایران سے لائے جانے والے پیٹرول اور ڈیزل کے کاروبار سے وابستہ ہے۔
ماشکیل کے رہائشی 25 سالہ عطا اللہ بلوچ کو اُس وقت ایک غیر معمولی صورت حال کا سامنا ہوا جب چند لیویز اہلکاروں نے انہیں بتایا کہ آئندہ وہ یہ کاروبار نہیں کرسکتے۔ پوچھنے پر اہلکاروں نے کہا: ’ہمارے ایک بڑے افسر کی ایرانی پیٹرول لانے والی گاڑی کی ٹکر سے ہلاکت ہوئی ہے، جس پر حکومت نے یہ پابندی لگائی ہے۔‘
ایرانی پیٹرول لانے پر پابندی چیف سیکریٹری بلوچستان کی طرف سے ایک نوٹیفیکیشن کے ذریعے لگائی گئی۔
عطا اللہ کے مطابق ان کے خاندان کا واحد ذریعہ معاش اسی کاروبار سے منسلک ہے، ان کے بھائی بھی اس کاروبار میں ان کے ساتھ ہیں، جس سے ان کے گھر کے 15 افراد کا گزر بسر ہوتا ہے۔
انہوں نے بتایا: ’ماشکیل میں روزگار کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں اور ان کے روزمرہ کے استعمال کی اشیا بھی ایران سے لائی جاتی ہیں۔‘
واضح رہے ضلع واشک کی تحصیل ماشکیل کا کوئٹہ سے فاصلہ ایک ہزار 51 کلومیٹر ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا کہ ’جہاں ایک طرف پابندی کے بعد پیٹرول کی قیمت بڑھ رہی ہے، وہیں دوسری جانب ہم جو کچھ کما کر گھر لے جاتے تھے وہ بھی بند ہوگیا ہے۔ پابندی کے بعد پیٹرول 60 روپے فی لیٹر سے سو روپے فی لیٹر تک پہنچ چکا ہے اور پابندی برقرار رہنے کی صورت میں اسے خریدنا اور فروخت کرنا ناممکن ہو جائے گا۔‘
عطا اللہ کے بقول: ’اگر یہ سلسلہ مزید چلتا رہا تو ہم نان شبینہ کے محتاج ہوجائیں گے کیونکہ اس کے علاوہ ہمارے پاس کوئی کاروبار نہیں۔‘
یاد رہے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو پیش کی گئی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ایرانی پیٹرول اور ڈیزل کی سمگلنگ سے ملکی معیشت کو سالانہ 60 ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔
معاشی معاملات پر نظر رکھنے والے تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ حکومت سمگلنگ کے خاتمے کے لیے بلوچستان میں روزگار کے متبادل ذرائع بنائے تب ہی اسے ختم کرنا ممکن ہوگا۔
معروف تجزیہ نگار اور سابق اکاؤنٹنٹ جنرل آف پاکستان اور سیکریٹری خزانہ بلوچستان محفوظ علی خان سمجھتے ہیں کہ اگر صوبے کے سرحدی علاقوں میں تیل کا کاروبار بند کردیا جائے اور متبادل کچھ نہ ہو تو دیگر مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔
’دنیا میں جہاں کہیں بھی کسی نے غیر قانونی کاروبار ختم کرنے کا سوچا تو اُس نے اس علاقے میں کوئی بڑا معاشی منصوبہ بنایا۔‘
محفوظ علی کے بقول: ’بلوچستان کے ایران سے متصل سرحدی علاقوں میں نہ صنعتیں ہیں اور نہ زراعت، جس سے لوگوں کا روزگار وابستہ ہو۔ یہاں پر کاروبار کا واحد ذریعہ صرف ایرانی اشیا اور تیل کی سمگلنگ ہے۔‘
ان کا کہنا تھا اگر لوگوں کے پاس روزگار نہیں ہوگا تو وہ دیگر منفی سرگرمیوں میں ملوث ہوجائیں گے، جو امن و امان کا مسئلہ پیدا کرسکتے ہیں۔
محفوظ علی کا ماننا ہے کہ سمگلنگ کا خاتمہ ہونا چاہیے تاہم چونکہ بلوچستان میں اکثر لوگوں کا روزگار اسی سے وابستہ ہے، لہذا انہیں متبادل روزگار کی فراہمی کے لیے بھی اقدامات کیے جائیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق ایران سے روزانہ 150 ٹینکرز اور دیگر گاڑیوں میں ایرانی پیٹرول اور ڈیزل سمگل ہوکر بلوچستان منتقل کیا جاتا ہے، جو بعد میں پورے ملک میں سپلائی ہوتا ہے۔
بلوچستان کے ایران سے متصل سرحدی علاقوں سے منتخب ہونے والے سیاسی رہنما بھی سمجھتے ہیں کہ ایرانی پیٹرول پر پابندی مسئلے کا حل نہیں۔
این اے 270 پنجگور، واشک اور آواران سے منتخب ہونے والے رکنِ قومی اسمبلی احسان اللہ ریکی کے خیال میں بلوچستان حکومت کے اس قدم سے سرحدی علاقوں میں بے روزگاری میں اضافہ ہوگا۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا: ’کوئٹہ سے باہر مستونگ سے لے کر تفتان، مکران، رخشان ڈویژن اور جھالاوان میں پاکستانی پیٹرول دستیاب نہیں۔ اس صورت میں ایرانی تیل کے کاروبار پر پابندی سے مذکورہ علاقوں میں ایک ہیجانی کیفیت اور بے روزگاری و شدید مایوسی جنم لے گی، جس سے یہاں کے لوگ منفی سرگرمیوں کی جانب راغب ہوسکتے ہیں۔‘
احسان اللہ نے اس معاملے پر متعلقہ حکام سے بات چیت اور اسے قومی اسمبلی سمیت تمام فورمز پر اٹھانے کا بھی اعلان کیا۔