کابینہ سے منظوری کے بعد صدر مملکت عارف علوی نے بھی ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) پاکستان کے ترمیمی آرڈیننس کی منظوری دے دی ہے، جسے ایچ ای سی ترمیمی آرڈیننس 2021کا نام دیاگیا ہے۔
اس آرڈیننس کے حوالے سے یہ خبریں بھی سامنے آئیں کہ ترمیمی آرڈیننس کے ذریعے ایچ ای سی کو وفاقی وزارت تعلیم کے ماتحت کیا جا رہا ہے۔ اگرچہ وزارت تعلیم نے ان خبروں کومسترد کردیا، تاہم بعض انتظامی تبدیلیوں کی تصدیق کی گئی ہے۔
ترمیمی آرڈیننس سے کیا تبدیلی آئے گی؟
وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود کے مطابق ترمیمی آرڈیننس میں ایسا کچھ شامل نہیں کیا گیا، جس سے ایچ ای سی کو وزارت تعلیم کے ماتحت تصور کیا جائے۔ بقول شفقت محمود: ’ہائر ایجوکیشن کمیشن ایک آزاد ادارہ ہے اور اس کے دائرہ اختیار پر کوئی قدغن نہیں لگائی گئی۔‘
تاہم انہوں نے بتایا کہ اس آرڈیننس کے تحت بعض انتظامی تبدیلیاں ضرور کی گئی ہیں، جن کے مطابق چیئرمین ایچ ای سی کی تعیناتی کی مدت چار سال سے کم کرکے دو سال کی گئی ہے، ایچ ای سی اراکین کی تعیناتی چار سال کے لیے ہوگی جبکہ چیئرمین اور اراکین مزید ایک ٹرم بھی لے سکیں گے۔
شفقت محمود کے مطابق: ’ایچ ای سی کے فیصلوں میں وزارت تعلیم کا کوئی عمل دخل نہیں ہوگا اور نہ ہی ان کے انتظامی معاملات میں کوئی مداخلت ہوگی۔‘
واضح رہے کہ حکومت نے چیئرمین ایچ ای سی طارق بنوری کو 26 مارچ کو عہدے سے ہٹایا تھا اور ترمیمی آرڈیننس کا اطلاق بھی اسی روز سے ہوگا۔
اس حوالے سے ایچ ای سی کے ترجمان وسیم خالق داد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ابھی تک ایچ ای سی ترمیمی آرڈیننس سے متعلق کوئی تحریری ہدایت نامہ موصول نہیں ہوا اور نہ ہی آرڈیننس کی کاپی ملی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’جب یہ ہمیں موصول ہوگا، تو تب ہی اس بارے میں رائے دے سکیں گے کہ اس میں کیا کچھ شامل کیا گیا اور کیا ترامیم ہوئی ہیں۔‘
ایچ ای سی کا کردار اور بہتری کی گنجائش
ماہر تعلیم رسول بخش رئیس سمجھتے ہیں کہ ’ترمیمی آرڈیننس میں کوئی ایسی بات نہیں، جس سے کوئی بڑی تبدیلی متوقع ہو کیونکہ اس ادارے کو تو ویسے ہی اٹھارہویں ترمیم کے بعد غیر موثر رکھا گیا ہے۔‘
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے مزید کہا کہ ’پنجاب اور سندھ میں ایچ ای سی کے دفاتر بننے سے کوئی فائدہ نہیں ہوا بلکہ ابہام پیدا ہوئے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا کہ ’2002 میں جب یونیورسٹی گرانٹ کمیشن سے ہائر ایجوکیشن کمیشن کا قیام عمل میں لایا گیا تو اس ادارے نے ملک بھر کی جامعات میں اعلیٰ تعلیم اور بیرونی ممالک میں طلبہ کو سکالر شپ دے کر انتہائی مثبت کردار ادا کیا، لیکن جب پیپلز پارٹی کے دور میں صوبائی ایجوکیشن کمیشن بنائے گئے تو یہ غیر فعال ہونا شروع ہوگیا۔‘
رسول بخش رئیس نے کہا کہ ’اس ادارے کی ذمہ داری تھی کہ یونیورسٹیوں میں معیار تعلیم کو مانیٹر کرے اور فنڈز بھی ان کے ذریعے جاری ہوتے تھے، ریسرچ کا کام بھی بہتر ہوتا جا رہا تھا، مگر اب آدھا تیتر آدھا بٹیر بن گیا ہے۔‘
ساتھ ہی انہوں نے سوال اٹھایا: ’ایچ ای سی کے چیئرمین یا اراکین کی مدت میں کمی بیشی سے کیا فائدہ ہوگا، جب انتظامی ڈھانچہ پرانا ہی چلے گا۔‘
ان کے خیال میں سندھ اور پنجاب کے دفاتر کی بجائے ایچ ای سی کو مکمل بااختیار اور پہلے کی طرح فعال بنانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ مقاصد حاصل ہوسکیں جن کے لیے یہ ادارہ قائم ہواتھا۔
اس معاملے پر ترجمان ایچ ای سی وسیم خالق داد نے بتایا کہ ’ایچ ای سی وفاقی فنڈز یونیورسٹیوں کو جاری کرتا ہے، اب جامعات صوبائی حکومتوں سے بھی فنڈز لیتی ہیں اور ایچ ای سی سے بھی لیا جاتا ہے۔ اسی طرح ہم نے ریسرچ کے لیے بھی بڑا سیٹ اپ بنایا ہوا ہے، جس کے ذریعے تعلیمی شعبے میں ریسرچرز کی مالی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔‘
ترجمان کے مطابق: ایچ ای سی کی جانب سے سالانہ 500 سے 600 طلبہ اور یونیورسٹی اساتذہ کو پی ایچ ڈی کے لیے دوسرے ممالک کی یونیورسٹیوں میں بھیجا جاتا ہے، جن کے تعلیمی اخراجات ایچ ای سی ادا کرتی ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ایچ ای سی چونکہ ایک آزاد اور بااختیار ادارہ ہے تو جامعات میں نئے شعبوں کے قیام کو یقینی بنانے کے لیے فنڈز جاری کرتا ہے جبکہ گذشتہ کئی سال سے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے کو بھی فروغ دیا جا رہا ہے۔