جب کہیں پر کوئی سکول بنایا جاتا تو سب سے پہلے عمارت بنائی جاتی ہے ۔ پانی، بجلی سمیت دیگر لوازمات دیکھے جاتے ہیں۔
جب کام مکمل ہوجاتے ہیں تو سکول کی رجسٹریشن کا پراسیس کیاجاتا ہے۔ اور تب سب سے آخر میں کلاسز کا اجرا کردیاجاتا ہے۔ مگر یونیورسٹی بنانے کےلیے سارے لوازمات اور قواعد وضوابط بعد میں طے کئے جاتے ہیں۔ سب سے پہلے سٹاف بھرتی کیا جاتا ہے۔ پھر سٹوڈنٹ لائے جاتے ہیں۔
اور کہیں پر خالی جگہ پر یونیورسٹی کا قیام عمل میں لایا جاتا ہے جس کی رجسٹریشن سب سے بعد میں کی جاتی ہے۔ جس کے باعث ملک بھر میں یونیورسٹیاں تباہی کا شکار ہوگئی ہیں۔ جہاں ضرورت سے زیادہ عملہ علاقائی سیاست دانوں کی وجہ سے بھرتی کیا جاتا ہے۔ اور یوں یونیورسٹی یونیورسٹی کم بھینسوں کا طبیلہ زیادہ لگتی ہے۔
یونیورسٹیوں میں سیاسی عمل دخل کا کام عوامی نیشنل پارٹی کے دورسے شروع ہوا اور موجودہ حکومت نے بھی اس گنگا میں ہاتھ دھولیے ہیں ۔ اس حکومت نے تو رہی سہی کسر بھی پوری کردی جب انہوں نے تعلیمی بجٹ میں کٹوٹی کردی جس کے باعث ملک بھر میں بیشتر سرکاری جامعات شدید مالی مشکلات کا شکار ہیں۔
اگرچہ شعبہ تعلیم کے لیے کسی بھی دور حکومت میں مثالی بجٹ مختص نہیں کیا گیا۔ تاہم صورتحال کبھی اس طرح گھمبیر نہیں ہوئی کہ ملک بھر کی جامعات کو اپنی بقا کے لالے پڑ جا ئیں۔ دنیا بھر میں بجا طور پر اعلیٰ تعلیم کے اداروں کو قوم کی فکری اور ذہنی تربیت کا ضامن سمجھا جاتا ہے۔ مگر جب یہ ادارے اپنی بقا کی جنگ لڑنے پر مجبور ہو جائیں توان سے قوم کی تربیت کی امید رکھنا خام خیالی ہے۔ صوبہ خیبر پختونخوا کی سرکاری جامعات کی یہی کیفیت ہے۔ یکساں نصاب تعلیم، معیار تعلیم، شرح خواندگی، علمی اور سائنسی تحقیق اور عالمی درجہ بندی جیسے معاملات کہیں پس منظر میں چلے گئے ہیں۔ فی الحال یونیورسٹیوں کی صرف ایک ترجیح ہے۔
اور وہ یہ کہ کسی نہ کسی طرح اپنے وجود کو قائم رکھا جائے۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے ہائیر ایجوکیشن پر جب کٹ لگایا تو اس کا براہ راست اثر تمام یونیورسٹیوں پر ہوا۔ گزشتہ سال گلگت بلتستان یونیورسٹی کے وائس چانسلر کا خط سامنے آیا تھا۔ اس سال پشاور یونیورسٹی کے وائس چانسلر کا خط گردش کرتا رہا کہ پشاور یونیورسٹی انتہائی ابتر حالات سے دوچار ہے۔ جس کے پاس اپنے ملازمین کو دینے کے لیے تنخواہیں نہیں ہیں یہ وہ تاریخی ادارہ ہے (تب اسلامیہ کالج پشاور) جس میں قائد اعظم محمد علی جناح دو بار تشریف لائے تھے اور اپنی جائیداد کا ایک حصہ اس ادارے کے لیے وقف کیا تھا۔ اس ادارے کے سربراہ نے کئی بار حکومت کو مالی امداد کے بابت درخواستیں کیں مگر حکومت کے انکار کے بعد پشاور یونیورسٹی سمیت کچھ دیگر جامعات بنکوں سے قرض لینے پر مجبور ہوگئے یہ حالات صرف خیبر پختونخواہ کے نہیں بلکہ صوبہ پنجاب میں بھی کم و بیش یہی حالات ہیں۔
ساہیوال یونیورسٹی، اوکاڑہ یونیورسٹی، جھنگ یونیورسٹی اور ڈیری غازی خان یونیورسٹی کے حالات انتہائی مخدوش ہیں۔ یہاں تک کہ اساتذہ اور دیگر ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی کرنا انتہائی مشکل ہو چکا ہے۔ جس کی بنیادی وجہ ہائر ایجویکشن کمیشن کی جانب سے 2019- 2020 کے فنڈز میں کٹوتی کی ہے اس وجہ سے ملک کی تمام چھوٹی بڑی جامعات کوسخت مالی مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہاہے۔ رواں مالی سال ہائیر ایجوکیشن کا وفاقی بجٹ میں حصہ 0.09 فی صد ہے جو پچھلے 20 سالو ں میں کم ترین ہے۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے بجٹ میں کی جانے والی کٹوتی سے جامعات میں ترقیاتی منصوبے اور تحقیقی منصوبوں پر کام رک گیا ہے۔
ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے جامعات کے اساتذہ کی سکالرشپس بھی بند کر دی گئی ہیں۔ بجٹ میں کٹوتی سے یونیورسٹیز شدید مالی بحران کا شکار ہیں۔ خیبر پختونخواہ اور پنجاب کی بعض جامعات میں مالی بحران اس قدر سنگین ہے کہ بینکوں سے ادھار لے کر اساتذہ اور سٹاف کی تنخواہوں کی ادائیگی کی جارہی ہے ۔ اس لیے بعض یونیورسٹیز نے مالی بحران پر قابو پانے کےلیے طلبہ کی فیسوں میں 40 فی صد تک اضافہ کر دیاہے۔ فنڈز بروقت ریلیز نہ کیے جانے کی وجہ سے یونیورسٹیز مزید مشکلات کا شکار ہوسکتی ہیں ۔ ریکارڈ کے مطابق رواں برس ایچ ای سی کی جانب سے ملک کی تمام جامعات کو77.262ارب کی جاری گرانٹ دی گئی۔ جو مالی سال 2018.19 میں 97.42ارب اور 2017.18 میں 90.818ارب تھی۔ رواں مالی سال یونیورسٹیوں نے 103 ارب گرانٹ طلب کی تھی لیکن ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے صرف 77.262ارب گرانٹ جاری کی گئی ہے۔
خیبر پختونخواہ کی اکثر یونیورسٹیاں معاشی طور پر دیوالیہ ہونے کے قریب ہیں اس طرح سندھ ، پنجاب اور بلوچستان کی سرکاری جامعات کا بھی یہی حال ہے جس سے تحقیق وتدریس متاثر، تنخواہوں کی ادائیگیاں متاثر ، فیسوں میں اضافوں سے غریب طلبہ پریشان ،اساتذہ کی سکالر شپس بھی بند کردی گئیں۔ گذشتہ برس سرکاری جامعات کی تعداد 108 تھی جبکہ رواں برس 9 نئی یونیورسٹیز قائم کی گئی ہیں جس سے جامعات کی تعداد 117 ہو گئی ہے لیکن یونیورسٹیز کی گرانٹ میں اضافے کی بجائے کمی واقع ہوئی ہے۔ یونیورسٹیز کی انتظامیہ کے مطابق بروقت فنڈز نہ ملنے سے بھی مالی بحران میں اضافہ ہوتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اگر صوبہ خیبر پختونخواہ کی سب سے بڑی یونیورسٹی پشاور یونیورسٹی کی بات کی جائے تو پشاور یونیورسٹی اس وقت 70 کروڑ کے خسارے سے چل رہی ہے جبکہ یونیورسٹی میں ملازمین کی تعداد 3 ہزار سے زائد ہے جن کے لیے یونیورسٹی کو فوری طور پر 3 ارب روپے درکارہیں۔ یونیورسٹی انتظامیہ کے مطابق حکام کے مطابق بجٹ میں یونیورسٹی کو 400 ملین روپے ملے جس میں ایک ارب 4 کروڑ سے زائد پنشن کی مد میں خرچ ہوئے۔
دوسری جانب یقینا حیرت انگیز بات ہے کہ موجودہ حکومت تعلیم کے فروغ کے دعوے کرتی ہے اور اپنی انتخابی مہم کے دوران وہ یہ باور کراتی رہی ہے کہ وہ شعبہ تعلیم کو آگے لے جانے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھے گی لیکن اس کے اقدامات اس کے برعکس دکھائی دیتے ہیں۔ پاکستان میں تعلیم پر پہلے ہی جی ڈی پی کابہت کم خرچ کیا جاتا ہے’اوپر سے ان فنڈز پر کٹ لگایا جا رہا ہے جو بدترین زیادتی کے مترادف ہے۔ اگر مشکلات ہیں تو حکومت اراکین اسمبلی کی تنخواہوں’مراعات اور دیگر اخراجات پر کٹ کیوں نہیں لگاتی حالانکہ زیادہ تر اراکین کو ان تنخواہوں و مراعات کی ضرورت ہی نہیں۔ اگر ان کی تنخواہیں کم کر دی جائیں کیونکہ ان کی کارکردگی زیرو ہے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ جامعات کے فنڈز پر کٹ لگانا قوم کے مستقبل سے کھیلنے کے مترادف ہے۔جو وزرا اس اہل نہیں کہ ملکی معیشت اور اداروں کو اپنے پاﺅں پر کھڑا کرسکیں ان پر قومی خزانے سے بھاری رقوم خرچ کرنے کا کیا جواز باقی رہ جاتا ہے؟
کون نہیں جانتا کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کی فنڈنگ میں کمی سے اعلیٰ تعلیم و تحقیق کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔ حالیہ بجٹ میں مختص کیا گیا فنڈ جی ڈی پی کا تقریبا صفر اعشاریہ دوفیصد ہے، جو دو ہزار پانچ کے بعد سے کم ترین شرح ہے۔ کیونکہ مالی سال دو ہزار انیس بیس کے بجٹ میں ایچ ای سی کے لیے انتیس ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جبکہ گزشتہ برس اس ادارے کے لیے چھیالیس ارب روپے رکھے گئے تھے۔ یوں اس فنڈنگ میں تقریبا چالیس فیصد تک کی کمی کی گئی ہے، حالانکہ ایچ ای سی کا بجٹ تو اب 80 ارب روپے ہونا چاہیے تھا لیکن حکومت نے اسے مزید کم کر دیا ہے جس کے بعد یہ بات ذہن میں آتی ہے کہ جس طرح فلم بول میں شعیب منصور کے مشہور ڈ ائیلاگ تھے کہ جب کھلا نہیں سکتے تو پیدا کیوں کرتے ہو اسی طرح حکومت کو یہ کہنا ہے کہ اگر چلا نہیں سکتے تو پھر یونیورسٹیاں بناتے کیوں ہو؟