وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے پاکستان میں سرگرم چینی باشندوں کے ایک گروہ کو ان کے مقامی ساتھیوں سمیت گرفتار کر لیا ہے اور بڑی سطح پر کریک ڈاون شروع کر دیا گیا ہے۔
ایف آئی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر جمیل خان میو نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ تحقیقات کا دائرہ بڑھا دیا گیا ہے اور آئندہ چند روز میں مزید گرفتاریاں بھی عمل میں آئیں گی۔ اس گروہ سے پاسپورٹ، جعلی نکاح نامے اور کئی شناختی کارڈ، غیر ملکی کرنسی بھی برآمد ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا اس گروہ کا ٹارگٹ چھوٹے شہروں کے پسماندہ علاقوں کے غریب والدین کی بچیاں تھیں۔
جمیل خان میو نے بتایا کہ انہیں فیصل آباد کی ایک خاتون نے درخواست دی کہ ان کی بیٹی کو وانگ ہو نامی چینی لڑکا شادی کر کے لاہور لے گیا اور وہاں سے چین لے جانا چاہتا ہے جبکہ وہ اس سے ملاقات بھی نہیں کرنے دے رہا اور فون پر بھی بات نہیں کرنے دیتا۔ انہوں نے درخواست کی کہ ان کی بیٹی کو آزاد کرایا جائے۔
ڈپٹی ڈائریکٹر ایف آئی کے مطابق انہوں نے دو دن میں اس لڑکی کا سراغ لگایا۔ معلوم ہوا کہ چینی باشندے نے لڑکی کو علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئرپورٹ لاہور کے قریبی علاقہ رہائشی کالونی ڈیوائن گارڈن میں رکھا ہے۔
جب ایف آئی اے کی ٹیم نے وہاں چھاپہ مارا تو دو چینی لڑکے اور فیصل آباد کی لڑکی سمیت ایک اور لڑکی بھی بازیاب ہوئی۔ مزید چھان بین کی تو معلوم ہوا یہ پوری گلی چینی باشندوں کی رہائش گاہوں پر مشتمل ہے جو انہوں نے کرائے پر حاصل کی ہیں۔
ان دونوں چینیوں کو گرفتار کر کے تفتیش کی گئی تو پتہ چلا کہ ان کا ایک بہت بڑا نیٹ ورک ہے جو گذشتہ تین سال سے پاکستان کے مختلف شہروں میں لڑکیوں سے شادی کر کے چین سمگل کرنے کا کاروبار کر رہا ہے۔
جمیل خان نے بتایا کہ ان کی نشاندہی پر فیصل آباد، منڈی بہاءالدین، گوجرانوالہ اور لاہور کے مختلف علاقوں سے ان کے دیگر ساتھیوں کو بھی حراست میں لیا گیا جس میں آٹھ چینی باشندے وانگ ہو، شوئی شیلی، وانگ یزہو، چانگ شیل رائے، پن کھاو جے، وانگ باو، زاو جبکہ، ایک چینی خاتون کین ڈائس شامل ہیں۔ ان کے ساتھ فیصل آباد کے پادری زاہد مسیح اور دیگر تین پاکستانی ساتھیوں کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے۔
پاکستانی دلہن، چینی دولہا سکینڈل کے اہم نکات
- پاکستان سے تین سالوں میں مبینہ سینکڑوں لڑکیوں کو شادی کر کے جسم فروشی کے لیے چین لے جا کر عیاشی کے اڈوں میں رکھنے کا انکشاف ہوا ہے
- حکام کے مطابق سینکڑوں پاکستانی لڑکیاں چین میں وحشیانہ جنسی تشدد کا شکار ہیں، جب کہ بعض لڑکیوں کے اعضا نکالنے کی خبریں بھی موصول ہوئی ہیں
- عالمی سطح پر جسم فروشی کا دھندہ کرنے والے آٹھ چینی باشندوں ایک پادری سمیت 12 افراد مختلف شہروں سے گرفتار کر کے تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا
- غیر قانونی انسانی سمگلنگ کے اس کاروبار میں سابق ڈی ایس پی کا بیٹا بھی ملوث ہونے پر گرفتار
- اب تک چار لڑکیوں کو بھی بازیاب کرایا گیا جبکہ گرفتار ملزموں سے 36 لڑکیوں کی تفصیلات موصول ہوئی ہیں جن سے دو ماہ کے دوران چین کے مختلف شہروں میں جسم فروشی کا پیشہ کروایا جا رہا ہے
ایف آئی اے کے افسر نے بتایا کہ اس گروہ میں سابق ڈی ایس پی پولیس پرویز بٹ کے بیٹے انس بٹ بھی شامل ہیں اور انھیں بھی گرفتار کر لیا گیا ہے۔
جمیل خان میو کے مطابق اب تک کی تفتیش میں پتہ چلا ہے کہ یہ گروہ ہر مسلمان اور مسیحی مذہب کی لڑکیوں سے چینی لڑکوں کی شادیاں کراتا تھا۔ ایک ایک لڑکے کی کئی لڑکیوں سے شادی کرائی گئی۔
مسیحی لڑکیوں سے چینی لڑکوں کو مسیحی ظاہر کر کے نکاح کرانے کے لیے پادری اور مسلمان لڑکیوں سے شادی کے لیے چینی لڑکے کو مسلمان ظاہر کر کے نکاح خواں کے ذریعے نکاح کرایا جاتا رہا۔
ڈپٹی ڈائریکٹر ایف آئی نے بتایا اب تک کی تفتیش کے مطابق اس گروہ نے ایک سال میں 36 لڑکیوں کو چین بھجوایا جبکہ تین سالوں میں مختلف گروہوں کے ذریعے شادی کا ڈھونگ رچا کر تین سے چار سو تک لڑکیاں چین بھجوانے کے شواہد ملے ہیں۔
فیصل آباد کے نواحی گاؤں سے اس گروہ کا شکار ہونے والی ایک مسیحی لڑکی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو اپنی کہانی سنائی: میں میٹرک پاس ہوں۔ ہمارے گھر ایک رشتہ کرانے والی آنٹی آئی، جس نے ایک چینی لڑکے وانگ یاہو کی تصویر دکھائی اور بتایا کہ یہ پاکستان میں سڑکیں بنانے والی چینی کمپنی میں انجینیئر ہے، وہ شادی کرنا چاہتا ہے اور شادی کے اخراجات کے علاوہ میرے والدین کی مدد بھی کرے گا۔ اگلے ہی دن آنٹی اس لڑکے کو ساتھ لے آئی اور ملاقات بھی کرائی۔ وہ ہماری زبان نہیں سمجھتا تھا اس لیے ان کے ساتھ ایک پاکستانی لڑکا بھی تھا جو دونوں طرف کی بات کا ترجمہ کرتا تھا۔ چینی باشندے نے میرے والد کو 50 ہزار روپے دیے اور دو دن بعد تین چار ساتھیوں سمیت آیا جن کے ساتھ ایک پادری بھی تھا۔ سادگی سے شادی کی رسومات ہوئیں اور وہ رات کے وقت گاڑی میں مجھے لاہور ایئر پورٹ کے پاس گھر میں لے آئے جہاں پہلے سے چار لڑکیاں موجود تھیں۔ انہیں بھی شادی کر کے مختکف شہروں سے لایا گیا تھا۔ ان کی سفری دستاویزات بنانے میں ایک ہفتے کا وقت لگنا تھا۔ اس دوران ہم چاروں سے موبائل لے لیے گئے اور باہر نکلنے کی بھی اجازت نہ تھی۔ ہماری رکھوالی کے لیے ایک پاکستانی شخص تھا جو کسی بات کا جواب نہیں بلکہ دھمکیاں دیتا تھا۔ اس کے لاہور آنے کے تین دن بعد وہاں پولیس نے چھاپہ مار کر ہمیں بازیاب کرا لیا۔
گوجرانوالہ کی مہک لیاقت بھی اپنی شادی کی داستان یاد کرتے ہوئے رو پڑیں۔ انہیں ماں باپ نے ایک چینی شخص کے ساتھ شادی کے لیے راضی کیا تھا۔ پاکستان کی غریب مسیحی لڑکیوں کو ہم مذہب ہونے اور دولت مند رشتے کے خواب دکھا کر چینی مردوں سے رشتے طے کرنے اور انہیں چین بھیج دینے کے بہت سے کیس سامنے آئے ہیں۔ یہ عقدہ بعد میں کھلتا ہے کہ نہ وہ چینی ہیں اور نہ مسیحی۔
پاکستان میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے گذشتہ سال اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ کچھ جرائم پیشہ چینی باشندے پاکستانی لڑکیوں سے شادی کا ڈھونگ رچا کر ان کے والدین کو پیسے دے کر چین لے جاتے ہیں جہاں اُن سے مبینہ طور پر جسم فروشی کرائی جاتی ہے اور یہ سلسلہ مسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق چینی باشندوں کے اس کاروبار کا شکار زیادہ تر اقلیتی اور غریب لڑکیاں ہیں۔