سیالکوٹ کی تحصیل ڈسکہ کے حلقہ این اے 75 میں 19 فروری کو ہونے والے ضمنی الیکشن میں دھاندلی کے الزامات کے بعد الیکشن کمیشن کے حکم پر آج دوبارہ ضمنی انتخاب ہو رہا ہے۔
تاہم آج کے ضمنی الیکشن میں بھی دو بڑی سیاسی پارٹیوں پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریک انصاف کے امیدواروں نے ایک دوسرے پر دھاندلی کے الزام عائد کیے ہیں۔
آج صبح حلقے کے 360 پولنگ سٹیشنوں پر آٹھ بجے پولنگ شروع ہوئی جو شام پانچ بجے تک جاری رہے گی۔
ن لیگ کی امیدوار نوشین افتخار نے الزام عائد کیا ہے کہ 96 پولنگ سٹیشنوں پر دھاندلی کا خدشہ ہے۔
انہوں نے الیکشن کمیشن کو خط لکھا کہ انہیں کچھ پریزائیڈنگ افسران کی ساکھ پر شکوک وشبہات ہیں اور خدشہ ہے مذکورہ پریزائیڈنگ افسران فارم 45 میں ردوبدل کرسکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ پریزائیڈنگ افسران نتائج تبدیل کرسکتے ہیں لہٰذا الیکشن کمیشن ان کی سخت نگرانی کرے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ حکومتی مشینری استعمال کر کے ووٹرز پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔
پی ٹی آئی کے امیدوار علی اسجد ملہی نے بھی ن لیگ پر پولنگ کے دوران دھونس اور دھاندلی کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ ن لیگی رکن پنجاب اسمبلی ذیشان رفیق ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔
اس پر الیکشن کمیشن نے ذیشان رفیق کو ضابطہ اخلاق کی مبینہ خلاف ورزی پر نوٹس جاری کیا ہے۔
تاہم علی اسجد کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے کراچی سے رکن صوبائی اسمبلی حلیم عادل شیخ کو ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر گرفتار کیا گیا تھا لہٰذا ذیشان کے خلاف بھی سخت کارروائی کی جائے۔
ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسرعابد حسین نے نوشین افتخار اور علی اسجد ملہی کو ٹیلی فون پر کہا ہے کہ کسی بھی رکن اسمبلی یا حکومتی عہدے دار کے پولنگ سٹیشن کے اندر جانے پر پابندی ہے لہٰذا وہ شکایت کی صورت میں خود مداخلت کی کرنے بجائے آر او آفس سے رابطہ کریں۔
ایک حساس پولنگ سٹیشن کا دورہ کرنے والے ن لیگ کے عطا تارڑ اور پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں کے درمیان دھکم پیل اور تلخ کلامی ہوئی۔
عطا تارڑ نے اس پر ڈی پی او سیالکوٹ عبدالغفار قیصرانی سے واقعے کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا۔
حلقے میں سکیورٹی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے پولیس کی بھاری نفری تعینات ہے جبکہ رینجرز اہلکار بھی پولنگ سٹیشنوں کے باہر موجود ہیں۔
تھانہ ستراہ کے قریبی پولنگ سٹیشن پر اسلحے کی نمائش کرنے کے الزام میں نو افراد کو حراست میں لے لیا گیا۔
متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او محمد یوسف کے مطابق پانچ افراد کا تعلق ن لیگ جبکہ دو کا تعلق پی ٹی آئی سے ہے، ملزمان سے اسلحہ بھی برآمد ہوا ہے۔
پولنگ سے پہلے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور پاکستان مسلم لیگ ن کے کارکنوں میں حالات کشیدہ دکھائی دیے۔ حلقے میں ممکنہ کشیدگی کے پیش نظر سکیورٹی کے سخت انتظامات ہیں۔
الیکشن کمشنر آف پنجاب غلام اسرارخان نے علاقے کے ڈپٹی کمشنر کے ہمراہ این اے 75 میں ضمنی الیکشن کے انتظامات کا جائزہ لینے کے بعد سکیورٹی اور انتظامی امور بہتر کرنے کی ہدایت کی تھی۔
انہوں نے ڈسکہ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ حساس پولنگ سٹیشنوں کی تعداد میں اضافہ کیا گیا ہے۔
اسی طرح حساس پولنگ سٹیشنوں میں سی سی ٹی وی کیمرے لگائے گئے ہیں جبکہ 20 متنازع پولنگ سٹیشنوں پر نیا عملہ تعینات ہے۔
الیکشن کمیشن کی ہدایت پر تمام پولنگ سٹیشنوں پر پریزائیڈنگ افسران کو اینڈروئیڈ موبائل پر نتائج مکمل ہوتے ہی فوراً فارم 45 کی تصویر بھیجنے کا پابند کیا گیا ہے۔
ضمنی الیکشن دوبارہ کیوں؟
افتخار الحسن کی وفات کے بعد الیکشن کمیشن نے 19 فروری کو اس حلقے میں ضمنی الیکشن کرایا، جس کے لیے ن لیگ کی ٹکٹ پر افتخار الحسن کی بیٹی نوشین افتخار جبکہ پی ٹی آئی کے امیدوار علی اسجد ملہی تھے۔
تاہم پولنگ کے دن تصادم اور فائرنگ کے واقعات میں دو افراد کی ہلاکت اور 20 پولنگ سٹیشنز کے عملے کا پوری رات غائب رہنے کے بعد اگلی صبح واپس آنے کے واقعے پر ن لیگ نے دھاندلی کا الزام لگا دیا۔
پولنگ سٹیشنوں کے ’لاپتہ‘ عملے کی اگلی صبح واپسی کے بعد ریٹرننگ افیسر نے الیکشن کمیشن کو رپورٹ دی تھی کہ الیکشن نتائج میں ردو بدل کیا گیا۔
اس پر الیکشن کمیشن نے ن لیگ کی امیدوار نوشین افتخار کی درخواست پر 25 فروری کو فیصلہ دیا کہ نتائج میں ردوبدل کے باعث حلقے میں دوبارہ انتخاب 18 فروری کو کرایا جائے۔ تاہم بعد میں شیڈول تبدیل کر کے 10 اپریل کر دیا گیا۔
الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کو کالعدم قرار دے کر انتخابی نتائج کا اعلان کرنے سے متعلق پی ٹی آئی امیدوار اسجد ملہی نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ لیکن سپریم کورٹ نے اپیل خارج کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کا فیصلہ برقرار رکھنے کا حکم دیا۔
پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما قمر الزمان کائرہ کے مطابق ان کی پارٹی اس الیکشن میں مسلم لیگ ن کی امیدوار کو سپورٹ کرے گی جبکہ پی ٹی آئی نے بھی مختلف گروپوں سے جوڑ توڑ کیا ہے کیونکہ یہ ضمنی الیکشن دونوں حریفوں کے لیے ایک بڑے سیاسی معرکے میں تبدیل ہو چکا ہے۔
ن لیگ کی جانب سے سابق وزیر اعلیٰ پنجاب کے بیٹے حمزہ شہباز جبکہ پی ٹی آئی کی جانب سے عثمان ڈار و دیگر نے بھرپور مہم چلائی۔
اس ضمنی الیکشن کو غیر معمولی اہمیت مل رہی ہے کیونکہ اس کے نتائج سے دونوں جماعتوں کی پنجاب میں شہرت کا اندازہ ہو سکے گا، جس کے ملکی اور صوبائی سیاست پر گہرے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔
حلقے کا سیاسی پس منظر
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس حلقے سے 1990 میں آئی جے آئی کے نذیر احمد خان جبکہ 1993 اور 1997 میں ن لیگ کے سید افتخار الحسن کامیاب ہوئے۔
2002 میں پاکستان مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر علی اسجد ملہی نے کامیابی حاصل کی۔ ق لیگ کی حلقے میں کامیابی کی ایک وجہ سید افتخار الحسن کا ڈگری نہ ہونے کی وجہ سے انتخاب میں حصہ نہ لڑنا بھی تھا۔
2008، 2013 اور 2018 میں یہ نشست ن لیگ کے پاس ہی رہی۔ 2008 میں موجودہ ن لیگی امیدوار نوشین افتخار کے شوہر سید مرتضیٰ امین جبکہ 2013 اور 2018 میں سید افتخار الحسن کامیاب ہوئے۔