پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے پیر کو حکومت وقت کے خلاف نو جماعتی اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے تمام عہدے چھوڑنے کا اعلان کر دیا۔
کراچی میں پارٹی کی مرکزی مجلس عاملہ (سی ای سی) کے مسلسل دوسرے دن اجلاس کے بعد بلاول بھٹو زرداری نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی پارٹی پی ڈی ایم کے تمام عہدوں سے فوری طور پر مستعفی ہو رہی ہے۔
واضح رہے کہ سینیٹ میں قائد حزب اختلاف کے چناؤ کے معاملے پر بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) سے ووٹ لینے پر پی ڈی ایم نے دو جماعتوں پی پی پی اور عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کو شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے ان سے سات روز میں جواب طلب کیا تھا، جس پر اے این پی نے شوکاز نوٹس کے ردعمل میں پی ڈی ایم سے علیحدگی کا اعلان کیا تھا اور آج پی پی پی نے بھی اپنا فیصلہ سنا دیا ہے۔
بلاول نے پی ڈی ایم کی جانب سے ملنے والے شوکاز نوٹس کو مسترد کرتے ہوئے پی ڈی ایم سے مطالبہ کیا کہ وہ پی پی پی اور عوامی نیشنل پارٹی سے بلا مشروط معافی مانگے۔
ان کا کہنا تھا: ’اپوزیشن کی تحریکوں میں کبھی کسی کو کوئی نوٹس نہیں دیا گیا۔ تحریک بحالی جمہوریت یا ایم آر ڈی سمیت اپوزیشن کی تمام تحریکوں کے دوران کوئی شوکاز نوٹس جاری نہیں ہوا۔‘
ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’ہم اپوزیشن کے خلاف اپوزیشن کی سیاست کی مزاحمت کرتے ہیں۔ یہ نوٹس اس وقت کیوں نہیں دیا گیا جب سندھ میں ضمنی انتخابات میں اتحاد ہوا اور پنجاب میں سینیٹ کی پانچ نشستیں پی ٹی آئی کو دی گئیں۔‘
’استعفے آخری ہتھیار‘
پریس کانفرنس کے دوران بلاول نے کہا کہ پی پی پی سمجھتی ہے کہ پی ڈی ایم کی اسمبلیوں سے اجتماعی استعفے کی تجویز آخری ہتھیار ہونا چاہیے۔ ’ہمارا کل بھی موقف یہی تھا، آج بھی ہے اور آنے والے کل بھی یہی رہے گا۔‘
بلاول کا کہنا تھا کہ ان کا یہ موقف صحیح ثابت ہوا کہ انہیں اسمبلیوں کا پلیٹ فارم نہیں چھوڑنا چاہیے۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’جنہوں نے استعفیٰ دینا ہے وہ دے دیں، لیکن دوسروں پر زور نہ دیں۔ ہم پر کوئی اپنا فیصلہ مسلط نہ کرے۔‘
انہوں نے کہا کہ استعفے لانگ مارچ سے نتھی کرنے سے اتحاد کو کافی نقصان ہوا۔ ’ہم اے این پی کے ساتھ کھڑے ہیں، فیصلے صلاح و مشورے سے کریں گے۔‘
بلاول بھٹو نے کہا کہ حکومت مخالف اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کی بنیاد انہوں نے رکھی تھی۔ ’اے این پی اور پی پی پی کے بغیر پی ڈی ایم نہیں ہے۔ حزب اختلاف کی جماعتوں کو آپس میں ورکنگ ریلیشن شپ رکھنا ہوگی۔‘
ہم پر کوئی اپنا فیصلہ مسلط نہ کرے: بلاول
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ حکومت کی مخالفت کریں لیکن ہم کسی بھی صورت عزت اور برابری پر سمجھوتہ نہیں کرسکتے۔
بلاول بھٹو نے امید ظاہر کی کہ پی پی پی اور اے این پی کے تحفظات بہت ذمہ داری سے دور کیے جائیں گے۔
انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ’ن لیگ کو فیصلہ کرنا ہو گا کہ کیا وہ اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان کا مقابلہ کرنا چاہتی ہے یا پھر بلاول بھٹو اور پی پی پی سے۔‘
دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز نے آج لاہور میں میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ’پی پی پی اور اے این پی کو شوکاز نوٹس دینے کے فیصلہ پی ڈی ایم تھا نہ کہ کسی ایک جماعت کا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’شوکاز نوٹس کے ردعمل پر کیا طے کرنا ہے یہ مولانا فضل الرحمٰن کی دانش مندی اور قیادت پر چھوڑتے ہیں۔‘
یہ تو ہونا ہی تھا: فواد چوہدری
وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے انڈپینڈنٹ اردو کی نامہ نگار مونا خان سے گفتگو میں ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ’یہ تو ہونا ہی تھا کیونکہ نہ پیپلز پارٹی نظریاتی جماعت ہے اور نہ ہی ن لیگ۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’دونوں جماعتیں اپنے اپنے ذاتی مفاد کے لیے اکٹھی ہوئی تھیں، جب مفاد ختم ہوئے تو راہیں الگ ہو گئیں۔‘
بلاول نے مزید کیا کہا؟
اس سے قبل بلاول بھٹو زرداری نے اپنی پریس کانفرنس میں مسئلہ کشمیر پر گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان پر الزام عائد کیا کہ انہوں نے کشمیر کاز کو ’بہت نقصان‘ پہنچایا۔
ان کا کہنا تھا: ’وزیراعظم عمران خان کنفیوژن کا شکار ہیں۔ آج بھی پارلیمان کو اعتماد میں نہیں لیا جاتا کہ آپ کی پالیسی کیا ہے۔ ہم بھارت سے بات کر رہے ہیں یا نہیں کر رہے، ہم تجارت کر رہے ہیں یا نہیں۔‘
بقول بلاول: ’اس معاملے کو حل کرنے اور درست سمت میں چلنے کا ایک ہی حل ہے کہ عمران خان کو رخصت ہونا ہو گا۔‘
پریس کانفرنس کے دوران بلاول بھٹو نے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے معاہدے کو ’غلط‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان کو آئی ایم ایف ڈیل سے نکلنا چاہیے، یہ پاکستان کے مفاد میں نہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ (حکومت) مسلسل پاکستان کے کام کرنے والے عوام کو ٹارگٹ کر رہی ہے۔ یہ سب سے بڑی ناانصافی ہے کہ وہ غریب آدمی، جو مزدوری کرتا ہے، ہم ان کے کندھوں پر بھی اتنا ہی بوجھ ڈالیں، جتنا امیر آدمی کے کندھوں پر۔‘
بلاول نے کہا: ’یہ معاہدہ پی ٹی آئی کے مفاد میں ہے۔ ہم اسے مسترد کرنے کا اعلان کرتے ہیں اور رمضان میں بھی اس کے خلاف مہم چلائیں گے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ساتھ ہی ان کا کہنا تھا: ’بجٹ کی منظوری پارلیمان کا کام ہے لیکن اگر آپ نے یہ سب کام بند کمرے میں ہی کرنے ہیں تو یہ کام بھی آئی ایم ایف کے ساتھ کرلیں۔‘
پیپلز پارٹی چیئرمین نے حکومت پر تنقید جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’یہ پاکستان کے مرکزی بینک کو ایک آرڈیننس کے تحت پاکستان کے آئین سے بالاتر کرنا چاہتے ہیں، یوں وہ پارلیمان اور عدالت کو جواب دہ نہیں ہوگا۔ یہ پاکستان کی معاشی خود مختاری پر ایک حملہ ہے۔‘
اپنی پریس کانفرنس کے دوران بلاول بھٹو زرداری نے مشترکہ مفادات کونسل اور مردم شماری کے حوالے سے بھی بات کی اور کہا: ’ہم آج سے نہیں 2017 سے اس کے طریقہ کار کی مخالفت کرتے آرہے ہیں۔‘
’اس مردم شماری میں گنتی درست نہیں ہوئی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جیسے صاف و شفاف الیکشن ضروری ہیں، اسی طرح صاف و شفاف مردم شماری کروانا بھی پاکستان کے عوام کے مفاد میں اتنا ہی ضروری ہے۔‘