عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) نے گذشتہ سال دسمبر میں بننے والے حکومت مخالف اتحاد پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) سے منگل کو علیحدگی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ پارٹی کا کوئی بھی عہدیدار اس اتحاد کا مزید حصہ نہیں رہے گا۔
اے این پی نے علیحدگی کی وجہ پی ڈی ایم کی جانب سے ان کی پارٹی کو جاری شوکاز نوٹس بتایا ہے۔ پارٹی کے مرکزی رہنما نے علیحدگی کا اعلان کرتے ہوئے صحافیوں کو بتایا کہ پی ڈی ایم ایک پلیٹ فارم ہے اور وہ کسی بھی صورت اے این پی کو شوکاز نوٹس جاری نہیں کر سکتا، البتہ پی ڈی ایم کی کمیٹی ان سے اجلاس میں وضاحت طلب کر سکتی تھی۔
حیدر خان ہوتی کے مطابق پی ڈی ایم اب دو یا تین سیاسی جماعتوں کا ایک پلیٹ فارم بن گیا ہے اور اس شوکاز نوٹس کا مطلب اے این پی یا اس اتحاد میں شامل دیگر جماعتوں کی سیاسی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی کوشش تھی کیونکہ پی ڈی ایم کا کسی پارٹی کو شوکاز نوٹس دینے کا کوئی حق ہی نہیں بنتا تھا۔
عوامی نیشنل پارٹی کو یہ شوکاز نوٹس سینیٹ میں پاکستان پیلز پارٹی کی جانب سے نامزد اپوزیشن رہنما یوسف رضا گیلانی کو ووٹ دینے کی وجہ سے ملا تھا کیونکہ پی ڈی ایم کا موقف ہے کہ اجلاس میں اس بات پر اتفاق کیا گیا تھا کہ اپوزیشن رہنما پاکستان مسلم لیگ نواز سے ہوگا جبکہ ڈپٹی اپوزیشن رہنما جمعیت علما اسلام پاکستان سے ہو گا۔
اسی پر امیر حیدر خان ہوتی نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ انہوں نے پیپلز پارٹی کے امیدوار کو بالکل ووٹ دیا ہے اور اس کی ہم وضاحت بھی کر سکتے تھے اگر پی ڈی ایم اجلاس میں ان سے پوچھا لیا جاتا لیکن پی ڈی ایم نے ایسا نہیں کیا۔
اے این پی پہلی اور واحد اپوزیشن جماعت ہے جس نے پی ڈی ایم سے علیحدگی کا اعلان کیا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کو بھی پی ڈی ایم کی جانب سے شوکاز نوٹس بھیجا گیا تھا تاہم ان کی طرف سے ابھی تک اس نوٹس پر کوئی سخت رد عمل سامنے نہیں آیا ہے۔
یہ ضرور ہے کہ پاکستان مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کے رہنما مختلف مواقعوں پر ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی ضرور کرتے رہے ہیں لیکن ابھی تک تحریک سے علیحدگی کی بات نہیں ہوئی ہے۔
علیحدگی کے بعد اے این پی کا سیاسی مستقبل کیا ہوگا؟
ماضی میں اے این پی پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ وفاق میں اتحادی رہی ہے۔ اس سے پہلے 2008 کے عام انتخابات میں جب پاکستان پیپلز پارٹی کی مرکز میں حکومت بنی تو اے این پی کی صوبے میں حکومت تھی اور دونوں جماعتوں کا ایک دوسرے کے ساتھ بہت قریبی اتحاد تھا۔
تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ اے این پی کی پی ڈی ایم سے علیحدگی پر اے این پی کو کوئی نقصان اور نہ پی ڈی ایم کا اس پر کوئی اثر پڑے گا۔
پشاور کے سینیئر صحافی و تجزیہ کار اور گذشتہ چار دہائیوں سے اے این پی کی سیاست پر نظر رکھنے والے شمیم شاہد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اے این پی کی علیحدگی کا پی ڈی ایم یا اے این پی پر کوئی اثر نہیں ہوگا تاہم دیگر قوم پرست جماعتیں ضرور اس سے فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی قوم پرست جماعتیں جیسا کی پختونخوا ملی عوامی پارٹی یا قومی وطن پارٹی اے این پی کی علیحدگی کے بعد پاکستان مسلم لیگ نواز یا جمعیت علما اسلام کے ساتھ آئندہ انتخابات میں اتحاد کر سکتے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
شمیم شاہد کے مطابق خیبر پختونخوا کی اگر بات کی جائے تو اے این پی کی خیبر پختونخوا کی سیاست میں ایک کردار موجود ہے اور ظاہری بات ہے کہ مستقبل میں وہ پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ اتحاد کریں گے جبکہ دیگر قوم پرست جماعتیں اسی صوبے میں جمعیت علما اسلام کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کر سکتی ہیں۔
ان سے جب پوچھا گیا کہ اے این پی نے اپوزیشن تحریک سے علیحدگی میں پہل کیوں کی تو اس کے جواب میں شمیم شاہد کا کہنا تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی پہلے سے اس پوزیشن میں ہے کہ اس کا پی ڈی ایم میں اب رہنا نہ ہونے کے برابر ہے کیونکہ پاکستان مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی دونوں ایک دوسرے کے مد مقابل ہیں۔
پشاور پریس کلب کے صدر اور گذشتہ تین دہائیوں سے صوبے کی پارلیمانی سیاست پر نظر رکھنے والے ایم ریاض سمجھے ہیں کہ اے این پی کو پی ڈی ایم سے علیحدگی سے ایک نقصان یہ ہوگا کہ پارٹی نے جو سخت اپوزیشن کا موقف اپنایا تھا اس میں اب اتنا اثر نہیں ہوگا۔
انہوں نے بتایا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اے این پی اس صوبے کی پرانی سیاسی جماعت ہے اور صوبے کی سیاست میں ان کا ایک مستقل کردار رہا ہے تاہم خیبر پختونخوا میں حکومتیں بدلتی رہتی ہیں اور کوئی بھی مستقل پارٹی نہیں ہے جو یہاں کے سیاسی میدان پر براجمان ہوں۔
’جس طرح پاکستان مسلم لیگ نواز پنجاب کی اور پاکستان پیپلز پارٹی کو سندھ کی پارٹی کہا جاتا ہے اسی طرح اے این پی کو خیبر پختونخوا کی سیاست میں ایک اہم قوت سمجھا جاتا ہے۔ پی ڈی ایم کو ایک نقصان یہ ہو سکتا ہے کہ ماضی میں اور اب بھی جتنی حکومت مخالف تحریکیں اٹھی ہیں اسے اسی صوبے سے مین پاور ملتا رہا ہے اور اے این پی کی علیحدگی سے وہ مین پاور کم ہو جائے گی۔‘
ایم ریاض کے مطابق اس صوبے کی مین پاور کی مثالیں ماضی میں بھی موجود ہیں جس طرح عمران خان کی حکومت مخالف تحریک چلی تو اسی صوبے سے ان کو بہت زیادہ سپورٹ ملی اور اس کی ایک وجہ اس صوبے کا دارالحکومت اسلام آباد سے قریب ہونا ہے۔
اے این پی کو ایسا محسوس تو نہیں ہوا تھا کہ جمعیت علما اسلام جنوبی اضلاع میں اے این پی کی سیاست کو نقصان پہنچا رہی ہے اور خود وہاں پر پنجے گھاڑ رہی ہے؟ اس کے جواب میں ایم ریاض کا کہنا تھا کہ جنوبی اضلاع میں اے این پی کا اتنا مضبوط ووٹ بینک نہیں ہے جتنا جمعیت علما اسلام کا ہے تو میں نہیں سمجھتا کہ اس علیحدگی میں اس خوف کی کوئی بات ہوں۔
تاہم ایم ریاض نے بتایا ’اس میں کوئی شک نہیں کہ جمعیت علما اسلام نے پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے ایک مضبوط اپوزیشن کا کردار ادا کیا ہے تاہم اے این پی کو اس سے نقصان اس لیے نہیں کیونکہ اے این پی کا ووٹ بینک صوابی، چارسدہ مردان اور دیگر صوبے کے وسطی اضلاع میں ہے جبکہ جمعیت علما اسلام جنوبی اضلاع میں مضبوط ہے۔‘
اے این پی صوبہ بلوچستان میں بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) جو بلوچستان حکومت میں پاکستان تحریک انصاف کی اتحادی ہے، وہاں پر اے این پی نے ان کے ساتھ اتحاد بھی کیا ہے جبکہ دوسری جانب وہ حکومت مخالف تحریک کا حصہ بھی تھے۔
اس تضاد کی وجہ کیا ہے اور کیا مستقبل میں اے این پی خیبر پختونخوا میں بھی پی ٹی آئی کے ساتھ اتحاد کر سکتی ہے؟ اس کے جواب میں ایم ریاض کا کہنا تھا کہ سیاست میں کوئی بھی چیز آخری نہیں ہوتی تاہم اے این پی گذشتہ تقریباً آٹھ سالوں سے پی ٹی آئی کے خلاف اپوزیشن کا کردار ادا کر رہی ہے اور ان کا نہیں خیال کہ مستقبل میں وہ پی ٹی آئی کے ساتھ کسی حکومت میں اتحادی بنے۔