میرا تعلق جنوبی وزیرستان سے ہے لیکن مختلف وجوہات کی بنا پر گذشتہ ایک سال سے وزیرستان نہیں جاسکا۔ چند دن قبل مجھے صدر مقام وانا جانے کا موقع ملا۔ وزیرستان میں کیا دیکھا اور وانا میں کیا صورت حال تھی یہاں بیان کر رہا ہوں۔
پشاور سے چھ گھنٹوں میں ٹانک پہنچا۔ بازار سے 15 کلومیٹر دور وزیرستان میں داخل ہونے والے پہلے آرمی چیک پوسٹ سے عموماً گزرنا پڑتا ہے مگر اس مرتبہ صورت حال مختلف نظر آئی۔ ماضی کے برعکس چیک پوسٹ پر وہ رش اور لائنوں میں کھڑے قبائلی دیکھنے کو نہیں ملے۔ اس دفعہ گردوائی سے لے کر وانا تک سات چیک پوسٹوں پر کوئی فوجی اہلکار بھی نظر نہیں آیا۔
گردووائی چیک پوسٹ پر موجود ایک پولیس اہلکار نے بتایا کہ کچھ عرصے سے ان چیک پوسٹوں سے آرمی کے اہلکار چلے گئے ہیں اور اب ان کی جگہ ایف سی اور پولیس کے اہلکار ڈیوٹی سرانجام دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اوپر سے ہدایت ہے کہ ’زیادہ پوچھ گچھ نہیں کرنا البتہ دور سے نگرانی کے لیے ایف سی اور پولیس کے اہلکار موجود ہوں گے۔‘ اس طرح وانا تک دور سے سلام اور اور گاڑی کو آگے جانے کے اشارے ملتے رہے۔
تقریباً تین بجے وانا پہنچا۔ بازار میں گھومنے پھرنے کی بجائے سیدھا اپنے گھر کی طرف چلا گیا۔ دوسرے دن اپنے پڑویسوں کے علاوہ بازار میں مختلف طبقہ فکر کے لوگوں سے دعا سلام کی اور ملا نذیر گروپ کے طالبان کمانڈر جنان خان العروف بریخنہ سے ایک پروگرام میں ملاقات ہوئی۔ سلام کے بعد وہ میرے قریب آگئے اور پوچھنے لگے کہ ’کیا صورت حال ہے، کیا نئی تازہ ہے؟ آپ تو کافی عرصہ بعد وانا آئے ہیں۔‘
میں نے بھی جواب میں پوچھا لیا کہ ’طالبان کی کیا پوزیشن ہے؟ اب تو وانا بازار سمیت دیگر جگہوں پر پولیس آگئی ہے، طالبان کی رٹ تو ختم ہوگئی ہوگی؟‘ جس پر انہوں نے کہا کہ ’یہ بات درست ہے کہ پولیس آئی ہے لیکن طالبان کے دفتر بھی بدستور موجود ہیں۔ لوگ تھانوں میں مسائل کے حل کے لیے جانے کی بجائے ان دفتروں میں زیادہ آتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’چند دنوں کی بات ہے کہ افغانستان میں طالبان کے امیر مولوی ہیبت اللہ کا حکم آیا ہے کہ اپنی صفوں میں مضبوط رہیں اور بالوں کو کم کرکے کندھوں سے زیادہ لمبے نہیں رکھنا۔ اب سارے جنگجو لمبے بالوں کو چھوٹا کرنے جا رہے ہیں۔‘
وانا بازار اور مختلف علاقوں میں گھومنے پھرنے کا موقع ملا۔ بازار میں پچھلے سال کی نسبت زیادہ رش تھا۔ افغانستان سے آنے والے میووں کی وجہ سے فروٹ منڈی میں بھیڑ لگی ہوئی تھی۔ مقامی طالبان کے علاوہ افغان طالبان بھی جگہ جگہ نظر آ رہے تھے۔ افغان طالبان کو پہلے کی نسبت زیادہ عزت دی جا رہی تھی۔ اس کی وجہ شاید امریکہ کے عنقریب افغانستان سے انخلا اور مستقبل کے اقتدار میں ان کی ممکنہ شمولیت بظاہر دکھائی دیتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ملا نذیر گروپ کے ایک اور کمانڈر عالم کا کہنا تھا کہ طالبان کبھی بھی کمزور نہیں ہوئے، البتہ وہ اپنے علاقے میں لوگوں کا خاص خیال رکھتے ہیں، جس کی وجہ سے کبھی کبھار امن کی خاطر وہ ان کے خلاف بولنے والوں سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔
افغانستان میں خشک میووں کے تاجر وانا کے ٹیکہ خان نے بتایا کہ وہ رمضان کی پہلی تاریخ کو افغانستان سے وانا پہنچے ہیں اور افغان امریکہ کے جانے سے خوفزدہ ہیں۔ ان کے مطابق غزنی میں تجارت سے وابستہ لوگ بہت زیادہ پریشان تھے اور ان کہنا تھا کہ امریکہ کے جانے کے بعد علاقے میں بدامنی پھیل سکتی ہے، جس سے سرمائے اور سرمایہ کاری دونوں کو خطرہ ہوسکتا ہے۔
ملک انور نے بتایا کہ [افغانستان کی نئی نسل کو طالبان پسند نہیں وہ کسی بھی صورت انہیں برداشت نہیں کریں گے۔‘
اس دورے کے دوران مقامی حکام سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن کامیابی نہیں ملی۔
وزیرستان پاکستان کا ایک ایسا منفرد خطہ ہے، جہاں پاکستان میں حالات چاہے جتنے بھی خراب ہوں کوئی خاص اثر نہیں لیتا لیکن اگر افغانستان میں حالات خراب ہو جائیں تو اس کا براہ راست اثر پورے علاقے پر پڑ سکتا ہے۔