کل میرے بیٹے موسیٰ نے مجھ سے سوال کیا، ’کیا آپ سکول میں ہمیشہ فرسٹ آتی تھیں؟‘ سبھی بچوں کو لگتا ہے کہ ان کے والدین سے لائق فائق اور قابل کوئی اور ہستی نہیں، شاید اسی لیے اس نے سوال کیا تھا۔
میں مسکرا دی اور اسے بتایا کہ میں کبھی فرسٹ نہیں آئی البتہ کچھ مضامین اچھے لگتے تھے اور ان میں نمبر بھی اچھے آتے تھے۔
لیکن اس کے بعد 10 سالہ موسیٰ نے رونی سی شکل بنا کر کہا، ’میرے پاس آپ کے لیے ایک ’بیڈ نیوز‘ ہے، ‘ اور رپورٹ مجھے تھما دی جس پر ’فیل‘ درج تھا۔
میری سوالیہ نظروں کو پڑھ کر اس نے وضاحت پیش کی، ’ٹیچر نے اسائمنٹ کے نمبر نہیں دیے۔ دیر سے جمع کرائی تھی اس لیے فیل کر دیا۔ ‘
اس کے فیل ہونے کی بات سے یقیناً مجھے تشویش ہوئی اور تھوڑا سا غصہ بھی آیا۔ میں نے دیکھا کہ موسیٰ کے چہرے پر خوف اور پریشانی کے آثار ہیں۔
اس کی شکل دیکھ کر میں نے اسے ڈانٹنے کا ارادہ ملتوی کر دیا۔ مجھے لگا کہ اسے فیل ہونے کے خوف سے نکالنے کی ضرورت ہے۔
ناکام ہونا کسی کو بھی اچھا نہیں لگتا۔ یہی وقت ہے کہ اسے سمجھایا جائے کہ ناکام ہونا کوئی بری بات نہیں، ہاں محنت نہ کرنا یقیناً بری بات ہے۔
میں نے اسے اپنے قریب کر کے بتانا شروع کیا، ’بیٹا، ہم نے بھی پڑھا لیکن کبھی اول نہیں آئے۔ پرائمری میں تھے، تو دو بار فیل بھی ہوئے۔ یعنیٰ فیل ہو جانا بہت اہم بات نہیں۔ ابھی پاس نہیں ہوئے تو کوئی بات نہیں۔ اگلے امتحان میں پاس ہو جانا۔ تم نے محنت کی ہے۔ بس یہ کافی ہے۔‘
بچے سے تو میں نے نہیں کہا، لیکن ہاں آپ سے کہہ سکتی ہوں کہ سکول میں سب سے پچھلی نشست بیٹھنا ابھی بھی یادوں کا حصہ ہے۔
میٹرک میں حساب اور کیمسٹری اچھے لگتے تھے۔ کیمسٹری میں سکول بھر میں سب سے زیادہ نمبر بھی حاصل کیے۔
وہیں حساب میں 36 نمبر لے کر رو پیٹ کر پاس ہونا بھی یاد ہے۔ اس کے بعد سے حساب کو ہاتھ نہیں لگایا۔ یہاں تک کہ جی آر ای کا آسان حساب بھی شروع میں ہضم نہیں ہو رہا تھا۔
یونیورسٹی میں کرنٹ افیئرز اور ادب سےدلچسپی رہی۔ کتابیں پڑھنے کا شوق رہا۔ میں کالج تک ’ایورج‘ اور کچھ مضامین میں ’بیلو ایورج‘ رہی۔
پھر یونیورسٹی تک آتے آتے پڑھنا سکھ لیا۔ کچھ استاد اچھے ملے، اور کچھ گھر کے اثرات اور حلقہ احباب نے اثر چھوڑا، اور پڑھائی کے شوق اور کتابی کیڑا ہونے کے ناطے جماعت میں جگہ بناتے چلے گئے۔
لیکن کبھی فرسٹ کلاس فرسٹ یہاں بھی نہ آ سکے۔ آتے بھی کیسے کہ ہم صرف ’ایوریج‘ تھے۔ یہی نہیں، بلکہ مجھے اپنے بچپن کی سب سے پہلی یاد ہی دوسری جماعت میں فیل ہونے کی ہے۔
اب بھی ذہن میں وہ منظر گھوم جاتا ہے کہ رزلٹ کا دن ہے۔ گلی میں داخل ہوتے ہی دیکھ لیا کہ ہمارے گھر کے دروازے پر بہت سے بچے میری بڑی بہن کو اپنی اپنی رپورٹ کارڈ دکھا رہے ہیں۔
مجھے خوف ہے کہ میں تو فیل ہو گئی ہوں، سب مجھ سے میرا نتیجہ پوچھیں گے، میں اپنی رپورٹ کارڈ کیسے دکھاؤں گی، سب میرا مذاق اڑائیں گے۔ یعنی پچپن کی پہلی یاد ہی خوف پر مبنی ہے۔
شاید یہ ہماری پہلی ناکامی تھی، جو ذہن پر آج تک چسپاں ہے۔ ہاں، اگر اپنی کوئی تعلیمی کامیابی یاد کروں، تو وہ چوتھی جماعت میں سیکنڈ آنا تھا۔
اس سال ہمارے لیے گھر پر ٹیوشن کا بندوبست کیا گیا تھا اور پھر ہماری پڑھائی کی ٹرین چل پڑی تھی۔
ہم دھان پان سے تھے۔ سکول کی کتابوں سے زیادہ بچوں کے رسالے پڑھنے، ٹی وی اور باہر گلی میں کھیلنے کا شوق تھا۔ الحمداللہ اپنے بچپن میں ہر طرح کے کھیلوں میں حصہ لیا۔
کالج اور یونیورسٹی کی ساری چھٹیاں، محلے کی لائبریری یا پھر ’رنگون والا کمیونٹی سینٹر‘ کی خاک چھانتے گزری۔ لڑکیاں اور خواتین یہاں مختلف پکوان سیکھنے، دیگر ڈیکوریشن اور میک اپ کے کورس کرتی تھیں۔ لیکن ہم نے صرف لائبریری میں بیٹھ کر وقت گزارا۔
کیریئر کونسلنگ کا تصور نہیں تھا، اس لیے غلط مضامین بھی چنے۔ لیکن آگے جا کر اپنی پسند کے مضمون کا انتخاب کیا اور آج فخر سے کہہ سکتی ہوں کہ ہاں میرے پاس ’میڈلز‘ تو نہیں لیکن چیزوں کی بنیاد جاننے کا شوق ہے، سیکھنے کی لگن ہے۔ اب جو کام کرتی ہوں اپنی پسند اور شوق سے کرتی ہوں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس لیے اگر آپ ایوریج ہیں۔ تو کوئی بات نہیں، بس یہ دھیان رہے کہ آپ کے شوق کیا ہیں اور آپ کس مضمون میں بہتر ہیں۔
آپ کے پاس کوئی ہنر ہے، آپ کو کسی مشغلے میں دلچسپی ہے تو لوگوں کی پروا کیے بغیر اسے پورا کریں۔
کبھی ہم نے سوچا ہے کہ ناکام آدمی کیوں دور سے ہی نظر آ جاتا ہے، اس کے چہرے مہرے سے ہی مایوسی کیوں جھلکتی ہے؟ اس لیے کہ لوگ اسے ’ایورج‘ اور ناکام کہہ کر اس کا حوصلہ پست کر دیتے ہیں۔
لیکن ہمیں اگر معلوم ہو کہ ایورج ہونے کے باوجود ہم محنت کر کے اپنا مقام حاصل کر سکتے ہیں تو شاید حوصلہ بھی برقرار رہے اور آگے بڑھنے کی لگن بھی قائم رہے۔
یک اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہمارے ذہنوں میں بچپن سے ہی بات بٹھا دی جاتی ہے کہ ہمیں فرسٹ آنا ہے، فیل نہیں ہونا، فیل ہو گئے تو اس سے بری بات کوئی اور نہیں۔ ہمیں دن رات جیتنے کا درس تو دیا جاتا ہے، ہارنے کا سبق نہیں سکھایا جاتا۔
یقین جانیں ہار سے، ناکامی سے، فیل ہونے سے آپ جتنا سیکھ سکتے ہیں، اتنا بڑی سے بڑی کامیابی سے بھی نہیں۔
خود بھی سمجھیں اور بچوں کو بھی سکھائیں کہ زندگی سو میٹر کی دوڑ نہیں، میراتھن ریس ہے۔ چھوٹی موٹی ناکامیاں آتی ہیں تو آتی رہیں، بس یہ کہ مایوس نہ ہوں بلکہ ان ناکامیوں سے سبق سیکھیں۔ جو غلطی ہوئی، وہ نہ دہرائیں، بس آگے جیت ہی جیت ہے۔