فارسی ادب میں دیوان بیدل کے سوا چوتھی کوئی کتاب نہیں ہوئی جسے گلستان سعدی، مثنوی معنوی اور دیوان حافظ کے ساتھ رکھا جا سکے۔ ان میں سے بھی فکری و فنی اعتبار سے بیدل کا ترفع اور بالیدگی دیدنی ہے۔
بیدل نے کم و بیش معاشرے کے ہر موضوع پر شعر کہے ہیں اور مشرق کی تاریخ و تہذیب پر ان کی نظر سب سے جدا ہے۔
کلک بیدل ہر کجا دارد خرام
سکتہ ہم ناز روانی می کند
یعنی بیدل کی شاعری کا سکتہ بھی دریا جیسی روانی رکھتا ہے اور ان کا قلم ہر مضمون میں بسہولت چلتا ہے۔
خصوصا نچلے طبقات پر بیدل کی نگاہ انہیں تمام عظیم شعرا سے ممتاز کرتی ہے۔ انہوں نے پسے ہوے طبقات کے ہر پہلوکو موضوع بنایا اور اپنی فکری تہذیبی وابستگی کے ساتھ شعر کہے۔ بد قسمتی سے بر صغیر میں بیدل کو محض ایک خانقاہی شاعر بنا کر رکھ دیا گیا۔ بھلے بیدل کی شاعری کا ایک بڑا حصہ وحدت الوجودی ہے لیکن انہوں نے وحدت الوجود میں بھی انسان کی عظمت کا اثبات کیا ہے ان کی وجودی فکر ہمارے تمام کلاسیک اردو فارسی اور پنجابی شعرا سے مختلف ہی نہیں بلکہ فنی و فکری تہذیبی رچاو میں بیدل یگانہ روزگار ہیں۔ بیدل فرماتے ہیں
جز بہ ہم چیدن کسی را با تصرف کار نیست
گندم انبار است ہر سو لیک قحط آدمیست
گویا بیدل کے نزدیک گندم پر تصرف کا حق صرف کسان کو ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہر طرف گندم کے انبار ہیں لیکن آدمی کا قحط ہے، آدمی کے نا پید ہونے کی وجہ انسانی سماج میں غیر منصفانہ تقسیم ہے جسے بیدل تنقید کا ہدف بناتے ہیں۔ ان کے نزدیک خالی پیٹ والوں نے دنیا کو کھلایا اور پلایا ہے۔ بیدل کا شعر ہے
ہر کجا باشد قناعت آبیار اتفاق
پہلوی از نان تہی ایجاد گندم می کند
سوانح بیدل گوا ہ ہے کہ وہ ساری زندگی کسی خانقاہ یا دربار سے وابستہ نہیں رہے۔ پاکستان کی موجودہ صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوے بیدل کے ہزارہا شعر سامنے آتے ہیں جو ان کی فردا بینی کا مسلم ثبوت ہے۔ بادشاہوں اور نوابوں اور اہل اقتدار کے بارے میں بیدل نے کیا خوب کہا ہے
حرص قانع نیست بیدل ورنہ اسباب جہان
آن چہ ما درکار داریم اکثری درکار نیست
گویا ہمارے زمانے میں عالمی استعمار اور سرمایہ داری نے تعیشات کو ضروریات بنا کر رکھ دیا ہے۔ میڈیا کی کوئی بھی صورت ہو سرمایہ داری نے اس پر ایسی اجارہ داری قائم کی ہے کہ تیسری دنیا کے ممالک کوئی بھی ذاتی سماج ترتیب نہیں دے سکتے۔ بیدل کہتے ہیں کہ بے مایہ لوگوں سے کسی خیر کی توقع نہ کرو کھچا ہوا ہاتھ پاؤں کے ناخن کی طرح ہوتا ہے جو کوئی کار خیر سر انجام نہیں دے سکتا
از کف بی میا گان، کار کشائی مخا
دست چو کو تہ شود، ناخن پا می شود
بیدل کا مشاہدہ اور تجربہ اس قدر عمیق ہے کہ وہ انتہائی حسن کے ساتھ اپنا مصرع تراشتے ہیں۔ ان کا مصرع دیگر فارسی شعرا کی طرح برہنہ نہیں ہوتا۔ وہ غریبوں کی انا پر زد نہیں آنے دیتے اور کہتے ہیں کہ نچلے طبقات کبھی اونچے طبقات کی دولت پر نظر نہیں رکھتے بلکہ جس طرح بھی بن پڑے اپنی زندگی خود آسان بنانے کی کوشش کر تے ہیں۔ فرماتے ہیں
چشم امید نداریم زکشت دگران
دل ما دانہ ی ما نالہ ی ما ریشہ ی ما
کہ ہمارا دل ہمارا دانہ ہے اور ہماری آہ و زاری گندم کا ایک سٹہ، یہی نہیں بلکہ بیدل نےمزدوروں کی زندگی پر بھی ہزارہا شعر کہہ رکھے ہیں جو اس قدر انوکھے ہیں کہ آج بھی نئے لگتے ہیں۔ بڑی شاعری کے پانچ اوصاف ہیں:
- وہ کسی بھی زبان میں ہو ہر شخص اس کا مخاطب ہوتا ہے
- بڑا شاعر مستقبل بیں ہوتا ہے
- بڑی شاعری پر جتنا وقت گزرے اس کے نئے پہلو نکلتے چلے جاتے ہیں
- بڑی شاعری فرد کے اندوہناک لمحات میں اس کے لئے جینے کا آسرا ہوتی ہے
- بڑی شاعری کی زبان آنے والے زمانوں کی زبان کے ساتھ جڑ کر نادرہ کاری کا ثبوت دیتی ہے۔
یوں دیکھا جائے تو بیدل کی زبان آج بھی جدید ہے۔ کہتے ہیں:
بیدل کہتے ہیں
ندانم این ہمہ کوشش برای چیست کہ چرخ
زانجم آبلہ دارست چوں کف مزدور
ایسا نیا پن کہ آسمان کے ستاروں کو مزدور کی ہتھیلی کے چھالے کہنا کہیں کسی اور فارسی شاعر کے یہاں دکھائی نہیں دیتا۔ پاکستان کے موجودہ حالات کو مد نظر رکھتے ہوے بیدل کی غزلیں پڑھی جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ بیدل کس طبقے کے ساتھ کھڑے ہیں اور کس کی نمائندگی کر رہے ہیں
سر بہ غفلت مفرازید زآہے مظلوم
برق خفتیست بفوارہ ی آہی خشکش
کہ بے بسوں کی آہ پر سر غفلت سے اونچا نہ کر کہ مظلوم کی آہ میں ایسی بجلی ہوتی ہے جو بڑے بڑوں کو جلا کر رکھ دیتی ہے۔
انسان کی عظمت کے اثبات پر بیدل حیران کن حد تک گرفت رکھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ فطرت کے متوازی ترتیب دی ہوئی انسان کی دنیا ہی تہذیب ہے۔ بیدل کہتے ہیں
تا خموشی داشتیم آفاق بی تشویش بود
موج این بحر از زبان ما طلاطم کدہ است
جب تک ہم خاموش رہے آفاق کو کوئی فکر لاحق نہیں ہوئی یہ ہماری آواز تھی جس نے اس آفاق کے سمندر میں طلاطم پیدا کیا یہاں تک کہ بیدل انسانی ارتقا کی دید سائنسی صورت کو بھی تسلیم کرتے ہیں۔ فرماتے ہیں
بی ہیولی ہیچ چیزی قابل صورت نہ شد
آدمی ہم پیش از آن کادم بود بوزینہ بود
بیدل آج کے اور آنے والے ہر زمانے کے دانشور ہیں۔ انہوں نے فارسی شاعری کو سوچنا سکھایا۔ ان کی شاعری صدیوں زندہ رہنے والی ہے۔ آج کے پاکستانی معاشرے میں عدم رواداری اور عدم برداشت کی جو حالت ہے بیدل نے اسے موضوع بناتے ہوئے کہا ہے
ملکیست بی کسی درآنجا غریب شہر
چون می شود شہید ستم کش نمی شود
جی ہاں یہ پاکستانی سماج ہی ہے جس میں مختلف تعصبات کے تحت بیسیوں لوگ قتل ہوتے ہیں اور پھر بھی مظلوم نہیں کہلاتے۔ اردو اورفارسی پنجابی شاعری پر بیدل کے اثرات اتنے زیادہ ہیں جنہیں صرف سوچا جا سکتا ہے بلکہ اکثر کلاسیکی شاعروں نے تو بیدل کے شعروں کا سیدھا سیدھا ترجمہ کر دیا ہے۔ اس موضوع پر پھر کبھی گفتگو ہو گی، فی الحال پاکستانی حالات اور طبقات پر بیدل کے ایک شعر پر گفتگو تمام ہوتی ہے
بترس از آہ مظلومان کہ ہنگام دعا کردن
اجابت از در حق بہر استقبال می آید
کہ مظلوموں کی آہ سے ڈرو کیو نکہ دعا کے وقت قبولیت اس کے استقبال کے لیے آتی ہے۔