سوات کے مشہور سیاحتی مقام مالم جبہ کی ایک اونچی پہاڑی پر لیاقت علی کی ایک چھوٹی سی کینٹین تھی۔ ساتھ ہی واقع سکی ریزورٹ پر آنے والے مہمانوں سے ان کی بھی روزی روٹی پوری ہوتی تھی مگر جب سے ریزورٹ بند ہوا ہے، ان کا روزگار ختم ہوگیا ہے۔
لیاقت بتاتے ہیں: ’میں مہمانوں کے لیے چائے کے ساتھ گرما گرم پکوڑے بناتا تھا۔ سکی ریزورٹ کے آس پاس کیبن بنے تھے۔ ہر کیبن میں چھ سات بندے کام کرتے تھے۔ اس طرح سینکڑوں لوگوں کا روزگار لگا ہوا تھا۔ دن کے ہزار بارہ سو کما لیتے تھے۔ گھر کا چولہا جل رہا تھا اور اخراجات پورے ہورہے تھے۔‘
لیاقت علی نے بتایا کہ اگرچہ وہ اپنے کام سے مطمئن تھے تاہم وہ انتظامیہ کی جانب سے سیاحوں پر لاگو فیس سے اکثر دل گرفتہ رہتے تھے۔
’سیاحوں سے تین سو روپے انٹری فیس وصول ہوتی تھی، سو روپے بیت الخلا استعمال کرنے کے، ڈھائی ہزار زپ لائن اور اسی طرح چیئر لفٹ اور دیگر تفریحی سہولیات اور کھانے پینے کی رقم ملا کر بات ہزاروں تک پہنچ جاتی تھی۔ مالی لحاظ سے کمزور لوگوں کو یہاں آنا کافی مہنگا پڑتا تھا۔‘
لیاقت علی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ ایک غریب خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور گھر کے اخراجات چلانے میں ان کا بہت بڑا حصہ تھا۔ ’ایسے حالات میں جب رمضان کا مہینہ بھی چل رہا ہے اور کاروبار بھی بند ہو گیا ہے تو مالی حالات کا خراب ہونا ایک یقینی بات ہے، لیکن میں پھر بھی کہتا ہوں کہ بھلے دکان بند رہے لیکن فیس میں کمی لاکر ہی سیرگاہ کو کھولا جائے۔‘
لیاقت علی کے اس بیان کے برعکس، کچھ تاجر ایسے بھی ہیں جنہیں نہ تو سیاحوں سے وصول ہونے والی فیس سے غرض ہے اور نہ ہی کسی اور بات کی فکر۔ ان کا بس ایک ہی مطالبہ ہے کہ مالم جبہ ریزورٹ کو دوبارہ کھول دیا جائے۔
اسی تناظر میں گذشتہ روز سوات میں تاجروں نے احتجاج کیا اور وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان سے موجودہ حالات کا فوری نوٹس لینے کا مطالبہ کیا۔
انہوں نے تفریحی مقام کی بندش کو حکومت کی غفلت قرار دیتے ہوئے کہا کہ سوات میں سیاحت کے شعبے سے وابستہ تاجر پہلے ہی مالی مشکلات کا شکار ہیں، جس میں موجودہ فیصلے کی وجہ سے مزید اضافہ ہوگیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان ہی تاجروں میں سے ایک جان محمد بھی ہیں جو اپنے گھر کے واحد کفیل ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ مالم جبہ میں سیاحوں کو ایک تفریحی مقام سے دوسرے تک لے جاتے تھے، لیکن اب انہیں کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ اب وہ کون سا روزگار کہاں ڈھونڈیں۔
مالم جبہ کا تفریحی مقام پاکستان کا سب سے بڑا اور پرانا ’سکی ریزورٹ‘ مانا جاتا ہے۔ جب سوات ایک ریاست کی حیثیت رکھتا تھا تب یہاں کے حکمران میاں گل جہانزیب کو 60 کی دہائی میں آسٹریا کے سفیر نے مالم جبہ میں ’سکی ریزورٹ‘ بنانے کا مشورہ دیا تھا، جس کے بعد آسٹریا کی حکومت نے اس مد میں فنڈ فراہم کرتے ہوئے یہاں 50 کمروں پر محیط ایک ہوٹل بھی تعمیر کروایا، تاہم ایک لمبے عرصے تک یہ مسئلہ رہا کہ آیا اس نئے تفریحی مقام کو نجی یا سرکاری طور پر چلایا جائے۔
بالاخر1999 میں حکومت پاکستان نے اس سیاحتی مقام کو چلانے کے حقوق حاصل کر لیے۔ تاہم طالبان دور میں سوات کی سیاحت کو سخت نقصان پہنچا، یہاں تک کہ مالم جبہ کے ہوٹل کو بموں سے اڑا دیا گیا اور مالم جبہ طالبان کا مسکن بن گیا۔
اگرچہ بعد میں پاکستانی فوج نے سوات سے طالبان کا صفایا کر دیا لیکن یہاں کی سیاحت کو دوبارہ پنپنے میں کافی عرصہ لگا۔ اس دوران 2014 میں حکومت خیبر پختونخوا نے سکی ریزورٹ ایک نجی کمپنی سیمسن گروپ کو لیز پر دیا جو معاہدے کے مطابق اب بھی قانونی طور پر اس ریزورٹ کی مالک ہے۔
سوات کے مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اگرچہ سیمسن گروپ نے مالم جبہ میں سیر وسیاحت کو فروغ دیا لیکن زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانے کی خاطر انہوں نے انٹری پر بھاری فیس مقرر کر دی، جس کے خلاف سوات کے رہائشیوں نے رواں سال ہائی کورٹ میں رٹ دائر کر دی۔ عدالت نے اس درخواست پر ایکشن لیتے ہوئے انٹری فیس پر پابندی لگا دی۔
نتیجتاً رواں ماہ سیمسن کمپنی نے مالم جبہ کو سیاحوں کے لیے بند کرتے ہوئے موقف ظاہر کیا کہ چونکہ انٹری فیس ختم کرنے سے ان کے اخراجات پورے نہیں ہوتے لہذا وہ سیاحوں کو سہولیات نہیں دے سکتے۔
واضح رہے کہ پشاور ہائی کورٹ کی مینگورہ بینچ نے گذشتہ سماعت کے دوران 21 اپریل کو ہونے والی اگلی سماعت تک داخلہ فیس لینے پر پابندی لگائی تھی۔