پاکستان کے ایک موقر انگریزی روزنامہ ڈان نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ بھارت نے کشیدگی میں کمی اور جموں وکشمیر سمیت تمام مسائل پر بیک ڈور مذاکرات کی پیشکش کے لیے دسمبر 2020 میں پاکستان کے ساتھ رابطہ کیا تھا، جس کا پاکستان نے امید افزا جواب دیا ۔
اس رپورٹ میں اعلیٰ سرکاری ذرائع کے حوالے سے، جن کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی، بتایا گیا کہ پاکستانی قیادت نے بھارت کی اس پیشکش پر تبادلہ خیال کرنے کے بعد فیصلہ کیا کہ ’خاموش مذاکرات‘ کے ذریعے تنازعات کے پرامن حل کے لیے تمام امکانات کا جائزہ لیا جائے گا۔
رپورٹ کے مطابق ذرائع کا کہنا ہے کہ بھارت نے پیشکش کی کہ دونوں ملک تمام تنازعات کو ایک ساتھ جامع مذاکرات میں زیر بحث لانے کی بجائے ان پرایک ایک کر کے بات چیت کریں۔
اس پر پاکستانی قیادت نے ایسے تمام طریقہ کار اختیار کرنے پر اتفاق کیا جو کشیدگی میں خاتمے کا سبب بن سکیں۔
حکومت پاکستان اور بھارت اب تک کسی قسم کے رابطوں کے بارے میں خاموش رہی ہیں اور اس بارے میں دونوں نے کوئی باضابطہ تصدیق نہیں کی ہے۔
تاہم دہلی کے بعد اسلام آباد دورے پر آئے روسی وزیر خارجہ سرگے لاوروف نے انکشاف کیا تھا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کی بحالی کے لیے مذاکرات شروع ہوچکے ہیں اور روس ان مذاکرات کا خیر مقدم کرتا ہے۔
پھر ان رابطوں میں متحدہ عرب امارات کا نام بھی سامنے آیا تھا جو ان رابطوں میں سہولت کار کا کردار ادا کر رہا ہے۔
وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے قومی سلامتی امور ڈاکٹر معید یوسف کی جانب سے حال ہی میں ایک بھارتی صحافی کو دیے گئے انٹرویو کے بعد اس حوالے سے قیاس آرائیاں جاری تھیں کہ آیا اسلام آباد اور نئی دہلی کے درمیان مذاکرات کے لیے بیک ڈور رابطے جاری ہیں؟
ڈاکٹر معید یوسف نے بھارتی صحافی کرن تھاپڑ کو انٹرویو دیتے ہوئے انکشاف کیا تھا کہ بھارت نے پاکستان سے مذاکرات کی خواہش کا اظہار کیا ہے جبکہ پاکستان نے کشمیر کو شامل کرنے کی شرط عائد کی ہے۔
ڈان کے مطابق اس سرکاری عہدے دار نے کہا: ’ہمارے لیے یہ اچھا موقع ہے کہ ہم سٹریٹجک وقفہ لیں۔ ہمیں تشدد کے تسلسل میں وقفے اور داخلی مسائل پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔‘
رپورٹ کے مطابق ذرائع نے تصدیق کی کہ دونوں ملکوں کی انٹیلی جنس قیادت کے درمیان بیک چینل مذاکرات جاری ہیں۔
اخبار نے ذرائع کے حوالے سے کہا کہ نئی دہلی کی ترجیح تھی کہ خاموش مذاکرات سیاسی پلیٹ فارم کی بجائے اسی سطح پر ہوں۔ اسلام آباد نے اس پر رضامندی کا اظہار کیا۔
اب حکام نے اعتراف کیا ہے کہ اس ابتدائی مرحلے میں پاکستان کی بنیادی دلچسپی ہے کہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر کو اس کی خود مختار حیثیت واپس مل جائے اور بھارت اتفاق کر لے کہ وہ متنازع علاقے کی آبادی میں کوئی تبدیلی نہیں لائے گا۔
دونوں ملکوں نے اتفاق کیا ہے کہ اس وقت اس معاملے میں کسی تیسرے فریق کو شریک نہیں کیا جائے گا۔
رپورٹ کے مطابق سرکاری ذریعے کا کہنا ہے کہ ’اب وہ وقت نہیں رہا کہ ہم ڈرائنگ بورڈ پر واپس جا کر نئی حکمت عملی تلاش کریں۔ اس صورت میں راستے میں رکاوٹیں آئیں گی لیکن اگر ہم ایک راستے پر آگے بڑھتے رہیں تو ہم اپنے مقاصد حاصل کر سکتے ہیں۔‘
تازہ معلومات سے پتہ چلتا ہے کہ ابتدائی طور پر پاکستان اور بھارت کے درمیان ابتدائی بیک ڈور رابطہ 2017 میں ہوا تھا۔
ذرائع کے مطابق متعلقہ اعلیٰ بھارتی حکام نے پاکستانی انٹیلی جنس اور فوجی قیادت کو خاموش پیغام بھیجا تھا کہ بات چیت شروع کی جائے۔
اس وقت کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے بیک چینل رابطے کی منظوری دی جس کے بعد یہ عمل بتدریج آگے بڑھتا رہا۔
ڈان نے اپنے رپورٹ میں مزید کہا کہ تاہم گذشتہ سال دسمبر میں مذاکرات میں تیزی آ گئی۔ تب سے اعتماد سازی کے کئی اقدامات ہوچکے ہیں جن میں پاکستان اور بھارت کے زیرانتظام کشمیر کی لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر فائربندی بھی شامل ہے۔
کہا جاتا ہے کہ بھارت کے ساتھ تازہ ترین رابطے میں پاکستان کی سول اور فوجی قیادت ایک پیج پر ہیں جبکہ ماضی میں بھارت کے حوالے سے پالیسیوں پر فوجی اور منتخب قیادت کے درمیان اختلافات تھے۔ اب حکام کا کہنا ہے کہ فوج کی اعلیٰ کمان چاہتی ہے کہ جنوبی ایشیا میں جلد امن قائم ہو۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایک سرکاری عہدے دار کے بقول: ’جنگ سے کبھی کوئی حل نہیں نکلا اور دو ایٹمی طاقتیں جنگ کی متحمل نہیں ہو سکتیں۔‘
عہدے دار کا استدلال ہے کہ فوج امن کے راستے میں رکاوٹ نہیں بنے گی کیونکہ اب جنگ آپشن نہیں رہا۔ اعلیٰ عہدے دار کے مطابق بھارت پاکستان کے ساتھ رابطے پر توجہ دے رہا ہے کیونکہ اسے مغربی اور شمالی سرحدوں پر دو محاذوں پر مسائل کا سامنا ہے۔
نتیجے کے طور پر اسے مغربی سرحد پر تعینات فوجوں کی بڑی تعداد کو چین کے ساتھ شمالی محاذ پر منتقل کرنا پڑ رہا ہے۔
بھارت کی جانب سے فوج کی اس نئی تعیناتی کے بعد پاکستانی انٹیلی جنس حکام کا اندازہ ہے کہ مغربی سرحد پر بھارت اور پاکستان کی ایک دوسرے کے خلاف تعینات فوج تعداد میں پہلی مرتبہ برابر ہو گئی ہے۔
پاکستان کا تجزیہ ہے کہ بی جے پی کی حکومت کی قیادت میں بھارت پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر کے لیے بہتر طریقے سے تیار ہوگا۔
مبصرین کے مطابق اگر دونوں ممالک کے درمیان بات چیت کا سلسلہ ایک مرتبہ پھر شروع ہوا ہے تو یہ خوش آئند ہے۔