صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور سے سکھ اقلیتی برادری کے 30 سالہ نوجوان اوی ناش کی گمشدگی کو ایک مہینہ ہوگیا ہے، لیکن ان کا کوئی سراغ نہیں مل سکا۔
دوسری جانب نوجوان کے اہل خانہ نے الزام مسیحی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے چار افراد پر عائد کیا گیا ہے، جن میں ایک خاتون بھی شامل ہیں۔
نوجوان کی گمشدگی کے بعد اہل خانہ اور سکھ کمیونٹی کی جانب سے احتجاج کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ اسی ضمن میں گذشتہ روز بھی پشاور پریس کلب کے سامنے احتجاج کیا گیا۔
لاپتہ اوی ناش کے بھائی سردار پرویندر سنگھ سے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ وہ کیس کی تفتیش سے مطمئن نہیں ہیں، کیونکہ ایک مہینہ گزرنے کے بعد بھی کیس میں کچھ خاص پیشرفت نہیں ہوئی ہے۔
انہوں نے بتایا: ’پہلے احتجاج میں ہم نے پولیس کے حق میں نعرے لگائے تھے تاکہ وہ ہماری مدد کریں، لیکن مایوس ہوکر اب ہم پولیس کے خلاف نکلیں گے۔ آج اسی سلسلے میں ایک میٹنگ میں ہم آئندہ کا لائحہ عمل ترتیب دے رہے ہیں۔‘
پرویندر سنگھ نے مزید بتایا: ’ہم نے چار ملزمان کو نامزد کیا ہے۔ اوی ناش کی گمشدگی کے دن کا موبائل ڈیٹا نکالنے پر کچھ دوستوں کے نمبر بھی نکلے لیکن ان سے کی گئی تفتیش سے بھی ہم مطمئن نہیں ہیں۔ ایک اعلیٰ پولیس افسرنے یہ تک کہا ہے کہ وہ مجبور ہیں اور اس کیس میں زیادہ پیشرفت نہیں کر سکتے۔‘
پرویندر سنگھ کے مطابق اوی ناش 27 مارچ کی شام سودا سلف گھر لاکر باہر گئے اور پھر واپس نہیں آئے۔ اگلے روز انہوں نے پشاور کے تھانہ گلبرگ میں اپنے بھائی کی گمشدگی کی ابتدائی رپورٹ لکھوائی، جس میں انہوں نے مسیحی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے چار افراد جن میں ایک خاتون، ان کا بھائی، شوہر اور ایک رشتہ دار شامل ہیں، کو نامزد کیا۔
‘بقول پرویندر سنگھ: ’نامزد ملزمان کے خلاف ہمارا ایک سال سے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) میں ہراسانی کا کیس چل رہا ہے، جس کا تاحال کوئی فیصلہ تو نہیں آیا، تاہم ہم تمام ثبوت ایف آئی اے میں پیش کر چکے ہیں۔ نامزد ملزمان نے ایک سال قبل میری بہنوں کو ہراساں کیا تھا، جن کے خلاف قانونی ایکشن لینے میں اوی ناش کافی مستعد تھے۔‘
انہوں نے تشویش ظاہر کی کہ چونکہ نامزد خاتون ملزمہ پشاور میں ایک نجی چینل میں بطور براڈ کاسٹر کام کرتی رہی ہیں، اور جن کی پہنچ وزرا اور اعلیٰ پولیس حکام تک ہے، لہذا انہیں خدشہ ہے کہ کہیں ان کا کیس ردی کی ٹوکری کی نظر نہ ہو جائے۔
اوی ناش کی گمشدگی کی خبر اگرچہ بعض پاکستانی اور بھارتی میڈیا پر شائع ہو چکی ہے البتہ متعلقہ سکھ خاندان کے مطابق انہوں نے ابھی تک سوشل میڈیا پر کوئی خاص مہم نہیں چلائی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دوسری جانب ایف آئی آر سے موصول ہونے والی تفصیلات کے مطابق اوی ناش سنگھ کے بڑے بھائی پرویندر سنگھ کی جانب سے پولیس کو دیے گئے بیان کے بعد اوی ناش کے اغوا اور گمشدگی کا مقدمہ پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 365، 164 اور 34 کے تحت درج کیا گیا۔
تھانہ گلبرگ کے ایس ایچ او ابراہیم خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ احتجاج متاثرہ خاندان کا بنیادی حق ہے تاہم انہوں نے کہا کہ متعلقہ تھانہ اپنی جانب سے بھرپور کوشش کر رہا ہے اور اس سلسلے میں وہ شواہد و بیانات اکٹھے کر رہے ہیں۔
’ہم اپنا کام کر رہے ہیں۔ ملزمان کو ضمانت قبل از گرفتاری ملی ہے، تفتیش پوری ہوتے ہی ملزمان کو گرفتار کر لیا جائے گا۔‘
ایس ایچ او نے مزید بتایا کہ پولیس تاحال وثوق سے نہیں کہہ سکتی کہ اس جرم کے پیچھے اصل محرکات اور مجرمان کون ہیں، لیکن بظاہر یہ ایک ذاتی دشمنی کا کیس معلوم ہو رہا ہے۔
لاپتہ ہونے والے اوی ناش کی دو سال قبل شادی ہوئی تھی۔ وہ اپنے آٹھ بہن بھائیوں میں ساتویں نمبر پر جب کہ بھائیوں میں سب سے آخری نمبر پر ہیں۔