ماہ رمضان کے آغاز میں بلوچستان کے رہائشیوں میں راشن تقسیم کرنے کے لیے چین کے سفیر نے کوئٹہ کا دورہ کیا، جہاں ان کی رہائش سرینا ہوٹل میں تھی۔
یہ 21 اپریل کا دن تھا جب انہوں نے کوئٹہ میں گورنر ہاؤس میں چھ اضلاع سے تعلق رکھنے والے 17 سو خاندانوں کے لیے اشیا خورد نوش گورنر بلوچستان کے حوالے کیں۔
اسی شام سرینا ہوٹل کی پارکنگ میں ایک خود کش حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا جس کے نتیجے میں پانچ افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے۔
سابق وفاقی وزیر اور سینیٹر مشاہد حسین سید کے خیال میں کوئٹہ میں اہم حساس علاقے میں اتنا بڑا حملہ سکیورٹی انتظامات کی ناکامی ہے۔
مشاہد حسین کے مطابق پاکستان نے گذشتہ سال نومبر میں جو ڈوزیئر وزارت خارجہ کے ذریعے جاری کیا اس میں واضح لکھا ہے کہ بھارتی خفیہ ادارہ ’را‘ کے پاکستان مخالف 87 ٹریننگ کیمپ قائم ہیں جن میں سے 66 افغانستان جبکہ دیگر بھارت میں ہیں۔
ڈوزیئر میں مزید یہ بھی تھا کہ پاکستان میں جتنے مزاحمتی گروہ ہیں چاہے وہ انتہا پسند ہوں یا علیحدگی پسند ان کو بھارت اکٹھا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
مشاہد حسین سید کا ماننا ہے کہ کوئٹہ کے سرینا ہوٹل پر حملہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے جس کا مقابلہ کرنے کے لیے پاکستان کو مضبوط حکمت عملی کی ضرورت ہے۔
سینیٹر مشاہد حسین کہتے ہیں کہ یہ سکیورٹی کی ناکامی تھی اور ناقص انتظامات تھے جس کی وجہ سے حساس علاقے کینٹ اور اہم سرکاری عمارتوں کے قریب ایک خود کش حملہ آور بھاری مواد کے ساتھ آکر حملہ کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔
مشاہد حسین کہتے ہیں کہ چین یا سی پیک کو کوئٹہ میں پہلی بار نشانہ نہیں بنایا گیا ہے بلکہ اس سے قبل بھی بلوچستان اور کراچی میں چینی باشندوں، سفارت خانے اور گوادر میں بھی حملے ہوچکے ہیں۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ اس طرح کے حملوں کو روکنے کے لیے باہمی رابطوں کی ضرورت ہے۔
واضح رہے کہ بلوچستان میں مزاحمتی تحریکوں کے سربراہان جن میں ڈاکٹر اللہ نذر بھی شامل ہیں وہ برملا اس کا اظہار کرچکے ہیں کہ بلوچ سرزمین پر چین کے کسی منصوبے کو کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مشاہد حسین نے تجویز دی کہ سی پیک منصوبوں کے علاوہ جو حساس زون ہیں ان کے حوالے سے انٹیلی جنس اور اداروں کے درمیان رابطوں کی ضرورت ہے۔ وفاق اور صوبوں کے درمیان رابطوں کی ضرورت ہے، خاص طور پر جہاں ایسے واقعات ہوتے ہیں یا جہاں غیر ملکی دورے کرتے ہیں۔
پاکستان چین تعلقات پر اس حملے کا اثر
سابق وفاقی وزیر کہتے ہیں کہ ’چین کا پاکستان میں اہم کردار ہے اور بلوچستان میں وہ سی پیک کے منصوبوں پر کام کر رہا ہے۔ حالیہ حملے سے دونوں ممالک کے تعلقات متاثر نہیں ہوں گے۔ چین کو بھی معلوم ہے کہ کہاں سے امداد آرہی ہے کون سے گروہ ہیں۔ ان کی پشت پناہی کرنے والے کون ہیں۔‘
کراچی میں نومبر 2018 میں چینی قونصل خانے پر حملے کی ذمہ داری بھی بلوچ مزاحمتی تنظیم بلوچ لبریشن آرمی کے مجید بریگیڈ نے قبول کی تھی۔
وہ کہتے ہیں کہ ’بھارت برملا کہہ چکا ہے کہ وہ سی پیک کو روکنے، غیر مستحکم کرنے کی کوشش کرے گا۔ اس میں پاکستان اور چین کا پختہ عزم ہے کہ باہمی تعاون سے وہ اس کا مقابلہ کریں گے۔‘
یاد رہے کہ بلوچستان میں چین نے سی پیک کے تحت ایک طویل مدتی منصوبہ شروع کیا ہے جس کا مرکز گوادر پورٹ ہے، جو بلوچستان کی مکران بیلٹ میں واقع ہے اور وہاں پر بلوچ مزاحمتی تنظیمیں سرگرم ہیں، جو سرکاری تنصیبات اور فورسز پر حملے کرتی رہتی ہیں۔
ادھر بلوچستان کے دفاعی اور سیاسی امور پر نظر رکھنے والے سینیئر صحافی شہزادہ ذوالفقار سمجھتے ہیں کہ حالیہ حملے کے بعد تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے ذمہ داری لینے کے بیانات سے الجھاؤ پیدا ہو گیا ہے۔
شہزادہ ذوالفقار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ عالمی میڈیا میں یہ بات چل رہی ہے کہ یہ حملہ چین کے لیے بڑا دھچکا ہے، دوسری جانب چینی حکام بھی اس سے پریشان ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے چینی حکام تحریک طالبان کے بیان کو نہیں دیکھ رہے بلکہ وہ اپنے طور پر تحقیقات کررہے ہیں کہ کیا طالبان بھی ان لوگوں میں شامل ہوگئے ہیں جو چین کی یہاں موجودگی کی مخالفت کر رہے ہیں۔
شہزادہ ذوالفقار نے بتایا کہ اس حملے میں یہ زیادہ اہم نہیں کہ چینی سفیر ہوٹل میں موجود تھے یا نہیں بلکہ اہم بات یہ ہے کہ دہشت گردوں نے حملہ کرکے یہ بتا دیا کہ وہ کیا کرسکتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ جہاں غیر ملکی ٹھہرتے ہیں وہ خود کو غیر محفوظ سمجھیں گے۔
وہ کہتے ہیں کہ ہوسکتا ہے کہ خودکش حملہ آور چینی سفیر کی گاڑی کے نکلنے کے انتظار میں ہو لیکن چینی سفیر کے نہ ہونے پر اس نے خود کو اڑا لیا۔ تاہم یہ سب تو تحقیقات کے بعد ہی سامنے آئے گا۔
تجزیہ کاروں کے خیال میں بلوچستان کالعدم تحریک طالبان پاکستان سمیت، لشکر جھنگوی، لشکر جھنگوی العالمی بلوچستان میں وجود رکھتے ہیں اور سرینا ہوٹل پر حملے کی ذمہ داری بھی ٹی ٹی پی نے قبول کی ہے۔
سی پیک کو خطرہ
شہزادہ ذوالفقار کہتے ہیں کہ حالیہ حملے سے سی پیک کو خطرہ تو نہیں کیوں کہ جب سے یہ منصوبہ شروع ہوا اس کی مخالفت ہورہی ہے اور امریکہ، بھارت سمیت بعض دیگر ممالک بھی چین کی یہاں موجودگی سے ناخوش ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ بھارت بھی نہیں چاہتا کہ پاکستان کی معشیت مضبوط ہو۔ وہ چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات خراب کرنا چاہتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ جب چین نے یہاں پر اس منصوبے کی بنیاد رکھی اس وقت سے اسے ان چیزوں کا ادراک رہا ہے کہ اس کی مخالفت ہوگی۔ حالیہ اور اس سے قبل ہونے والے حملوں کی صورت میں مشکلات سے بھی بخوبی آگاہ ہے۔
گو کہ کوئٹہ میں ہونے والے حملے میں کسی چینی باشندے کو کوئی نقصان نہیں پہنچا لیکن دہشت گردوں کے حملے نے پاکستان سمیت دنیا بھر کے میڈیا کی خبروں میں جگہ بنائی۔