پانچ دن کے سرچ آپریشن کے بعد انڈونیشیا کی گمشدہ آبدوز ’کے آر آئی ننگلا‘ کے ملبے کو بالی کے سمندر میں 800 میٹر گہرائی میں تلاش کر لیا گیا۔
آبدوز میں سوار 53 افراد میں سے کوئی بھی زندہ نہ بچ سکا جبکہ اس حادثے کی وجہ کا تعین بھی ابھی تک نہیں کیا جا سکا۔ اس بات کا فیصلہ انڈونیشیا کی بحریہ کو کرنا ہو گا کہ وہ باقی ماندہ ملبے کو تلاش کرنے اور اس کا تجزیہ کرنے میں کتنی توانائی صرف کرنا چاہتی ہے۔
’دی کنورسیشن‘ کی رپورٹ کے مطابق ابتدائی جائزے میں یہ سامنے آیا ہے کہ ڈوبنے والی آبدوز تین حصوں میں تقسیم ہو چکی ہے اور اس کا خول اور پچھلا حصہ الگ ہو چکے ہیں۔
انڈونیشیا کی بحریہ نے ایک ویڈیو فوٹیج جاری کی ہے جو سنگاپور کی نیوی کی زیر سمندر موجود ایک آبدوز نے دور سے بنائی ہے۔ اس ویڈیو میں ڈوبنے والی آبدوز کی پشت پر لگے پر کو دیکھا جا سکتا ہے۔
دوسری تصاویر میں آبدوز کے اندرونی حصوں کو دیکھا جا سکتا ہے لیکن ابھی یہ واضح نہیں ہو سکا کہ یہ آبدوز کے کون سے حصے ہیں۔
اس سے قبل 2017 میں ڈوبنے والی ارجنٹائن کی آبدوز سان ہوان کو ڈھونڈنے میں ایک سال کا عرصہ صرف ہوا تھا، تاہم ننگلا کا جلد مل جانا اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ یہ آبدوز اپنے آخری رپورٹ کیے گئے مقام کے قریب ہی تھی، لہذا اگر کوئی نقص پیش آیا ہو تو وہ اسی دوران ہوگا جب یہ آبدوز گہرائی میں جا رہی ہوگی۔
اس موقعے پر یہ طے کرنا ناممکن ہے کہ یہ حادثہ کیسے ہوا۔ اس کی وجہ کوئی مکینیکل یا مٹیریل نقص ہو سکتا ہے جو اس سانحے کی وجہ بنا۔ گہرائی میں کسی آبدوز کے قابو سے باہر ہونے کے لیے اسے زیادہ بڑے نقص کی ضرورت نہیں ہوتی۔
ہوسکتا ہے کہ اس میں آگ لگ گئی ہو جس کا آبدوزوں کے تنگ ماحول میں کافی خطرہ رہتا ہے جبکہ کوئی انسانی غلطی بھی ہو سکتی ہے۔ اگرچہ آبدوزوں کو بہت احتیاط سے اور پیچیدہ طریقہ کار کے تحت تیار کیا جاتا ہے، جن میں اس کے افعال کا بڑے پیمانے پر خیال رکھا جاتا ہے، لہذا مٹیریل کے نقص کے باعث یہ حادثہ ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔
وجہ جو بھی ہو کے آر آئی ننگلا کا حادثہ اس وقت یقینی ہو چکا تھا، جب یہ اس گہرائی میں اتری جس کا دباؤ برداشت کرنا اس کے خول اور ڈھانچے کے لیے ممکن نہیں تھا۔ اس گہرائی کا تعین کرنے کا بھی کوئی اصول موجود نہیں ہے جو بتا سکے کہ کتنی گہرائی میں حادثہ ہو سکتا ہے۔
ننگلا جیسی آبدوزوں کے لیے محفوظ گہرائی 260 میٹر تک ہوتی ہے۔ جبکہ ’تباہ کن گہرائی‘ اس سے کافی زیادہ ہو گی، لیکن گہرائی کے بڑھنے کے ساتھ ہی خول کے ٹوٹنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں اور 800 میٹر گہرائی میں ننگلہ کے بچ جانے کا امکان ہی نہیں تھا۔
ریکوری کی کوشش کتنی فائدہ مند ہو سکتی ہے؟
اطلاعات کے مطابق انڈونیشیا کے حکام ننگلا کے ملبے کو تلاش کرنا چاہتے ہیں۔ ایسا ہونا ممکن ہے اور ہمارے سامنے اس کی مثالیں بھی موجود ہیں۔ 1974 میں امریکہ کے ’ازورین‘ کوڈ نام والے منصوبے کے دوران ریکوری کی ایسی ہی کوشش کی گئی تھی جس کی گہرائی ننگلا کے مقام سے بھی زیادہ تھی۔ اس مشن کے دوران سوویت میزائل بردار آبدوز کے بڑے حصوں کو نکالا گیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس کے باوجود 800 میٹر کی گہرائی سے 1300 ٹن دھاتوں کے مجموعے کو سطح سمندر تک لانا ایک مشکل کام ہو سکتا ہے اور صرف چند ادارے ہی ایسے ہیں جو اس قدر مشکل کام کو سر انجام دے سکتے ہیں۔
اس کام پر آنے والے اخراجات بہت زیادہ ہوں گے۔ انڈونیشیا کی بحریہ جو محدود وسائل رکھتی ہے، اس کے لیے اس سے زائد اہم کام رکھتی ہے، جن پر یہ رقم خرچ کی جا سکے، جس میں اس کی باقی چار آبدوزیں بھی شامل ہیں۔
اس کے علاوہ اس بات کی کوئی گارنٹی بھی نہیں ہے کہ ریکوری کے بعد حادثے کی وجہ معلوم کی جا سکے گی۔ آبدوزیں بڑی اور پیچیدہ مشینیں ہوتی ہیں اور ان کا ’بلیک باکس‘ ان تمام ممکنہ مسائل کا احاطہ نہیں کر سکتا جس کا سامنا ننگلا کو کرنا پڑا ہو گا۔
اس کی بہترین حکمت عملی ملبے کی ابتدائی ویڈیو کا جائزہ اور ملبے کے مقام کے نقشے تیار کرکے ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ سمندر کی تہہ میں موجود مٹیریل کا جائزہ بھی لیا جانا چاہیے۔ اس کے علاوہ چند مخصوص حصوں کا ملبہ بھی حاصل کیا جا سکتا ہے جو جوابات فراہم کر سکے۔
مزید حادثوں کو روکنا
انڈونیشیا کی بحریہ اس وقت اندرونی طور پر اس تجزیے میں مصروف ہو گی۔ گو کہ اس بات کا امکان موجود ہے کہ ننگلا کو مٹیریل میں نقص کے باعث حادثہ پیش آیا ہے، اس کے باوجود تربیت اور معیارات پر نظر ثانی کی جا سکتی ہے۔
ملکی بحریہ کے لیے آبدوزوں کی تعداد میں حال ہی میں دو سے پانچ کشتیوں کا اضافہ کیا گیا ہے۔ سال 2017، 2018 اور گذشتہ مہینے تک اس کے لیے نئی کشتیاں شامل کی گئی ہیں جبکہ انڈونیشیا میں تیار کی جانے والی پہلی آبدوز کے آر آئی الوگورو کو بھی سروس میں شامل کر لیا گیا ہے۔
ننگلا جتنی ہی سروس کرنے والی آبدوز کاکرا جس میں حال ہی میں جدت لانے اور اس کی اہلیت بڑھانے کے لیے کام کیا گیا ہے، کو شاید ایک اور حادثے سے بچنے کے لیے سروس سے نکال لیا جائے۔ گو کہ اب بھی کاکرا کا جائزہ لیا جائے گا تاکہ مٹیریل کے نقص یا حادثے کی ممکنہ وجہ کو تلاش کیا جا سکے۔
کئی اہم حصوں میں تمام تر جدت کے باوجود کاکرا کو سروس میں 40 سال کا وقت بیت چکا ہے، جو کہ ایک طویل عرصہ ہے۔