کرونا (کورونا) وائرس کی شدید ترین علامات میں سے ایک سانس لینے میں مشکل پیش آنا ہے۔ حالیہ دنوں میں بھارت سمیت دنیا بھر میں آکسیجن کے سلینڈر حاصل کرنے کے لیے لگی قطاروں کی تصاویر دیکھی جا سکتی ہیں، کیونکہ دنیا میں میڈیکل آکسیجن کی رسد طلب سے کہیں کم ہے۔
بھارت بھی ان کئی ممالک میں شامل ہے جنہیں آکسیجن کی کمی کا سامنا ہے۔ وبا کے آغاز میں اسی قسم کے مناظر برازیل، ڈیموکریٹک ری پبلک آف کانگو، پیرو اور وینزویلا میں دیکھے گئے تھے۔
یونٹ ایڈ ایک عالمی ادارہ ہے جو کم اور درمیانی آمدن والے ممالک کو صحت کے مسائل پر قابو پانے میں مدد فراہم کرتا ہے۔ ادارے کے مطابق آکسیجن کی کمی کی وجہ اس کی قیمت، محدود وسائل اور لاجسٹک مسائل ہیں۔
سانس کی بیماری سے متاثرہ افراد کے علاج کے لیے آکسیجن کا کردار بہت اہم ہے، چاہے ایسا گھر پر کیا جا رہا ہو یا ہسپتالوں میں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق کووڈ 19 سے متاثر ہونے والے ہر پانچ میں سے ایک فرد کو ان کے خون میں آکسیجن کی مناسب مقدار کو برقرار رکھنے کے لیے میڈیکل آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق فروری میں عالمی ادارہ صحت کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں روزانہ پانچ لاکھ افراد کو 12 لاکھ آکسیجن سلینڈرز کی ضرورت تھی جبکہ یونٹ ایڈ نے آکسیجن کے ضرورت مند ممالک کی مدد کی قیمت ایک اعشایہ چھ ارب ڈالر سالانہ مقرر کی تھی۔
یونٹ ایڈ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر فلپ ڈیونٹن کا فروری میں کہنا تھا کہ ’یہ ایک عالمی بحران ہے جس کا جواب بھی عالمی طور پر دینا ہو گا۔‘
یونٹ ایڈ نے 20 ایسے ممالک کی نشاندہی کی ہے جنہیں آکسیجن کی رسد میں شدید کمی کا سامنا ہے جن میں ملاوی، نائیجیریا اور افغانستان شامل ہیں۔
یہاں بتاتے چلیں کہ آکسیجن دو طریقوں سے بنائی جاتی ہے۔
1۔ میڈیکل آکسیجن
آکسیجن بنانے والی فرانسیسی کمپنی ’ائیر لیکوئڈ سانتے‘ کے مطابق میڈیکل آکسیجن دوسری گیسوں اور ہوا میں موجود کثافتوں سے آکسیجن علیحدہ کرکے تیار کی جاتی ہے۔ اس کے لیے کمپریشن، فلٹریشن اور پیوریفیکیشن سمیت کئی مراحل طے کیے جاتے ہیں۔
ایسی میڈیکل آکسیجن میں شفافیت کی 99.5 فیصد شرح ہوتی ہے جسے بار بار ٹیسٹنگ کے مراحل سے گزارا جاتا ہے۔
ائیر لیکوئڈ کے مطابق زیادہ کمپریس کرکے اسے مائع میں تبدیل کر دیا جاتا ہے لیکن اس کا درجہ حرارت منفی 182 سے کم رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ ایسا کرکے ایک لیٹر مائع آکسیجن کو گیس کی صورت میں 800 لیٹر گیس کے برابر استعمال کیا جاسکتا ہے۔
مریضوں کے ساتھ سفر کرسکنے والے ایک لیٹر آکسیجن کے سلینڈر میں نارمل آکسیجن کے 200 لیٹر کے برابر کمپریسڈ آکسیجن ہوتی ہے۔
2۔ کمپریسڈ آکسیجن
ایسی مشینیں جو ہوا میں موجود نائٹروجن کو علیحدہ کر سکتی ہیں آکسیجن کی سطح کو 93 فیصد تک لے جا سکتی ہیں۔ یہ مشینیں پورٹیبل بھی ہو سکتی ہیں اور ہسپتال میں استعمال ہونے والی بڑی مشینیں بھی۔ لیکن یہ مشینیں طلب کی کمی کو پورا نہیں کرسکتیں جیسا کہ فرانس کے ہستپالوں میں کووڈ 19 کے کیسز میں اضافے کے باعث ہوا، جہاں آکسیجن کی طلب پانچ سے چھ گنا بڑھ گئی تھی۔
ان مشینوں کو بجلی کی کافی مقدار اور دیکھ بھال کے لیے ایک ٹیکنیشن کی ضرورت ہوتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
چین کے علاوہ دنیا میں میڈیکل آکسیجن تیار کرنے والے تین بڑے اداروں میں جرمنی کی فرم ’لنڈے‘ ہے، جو امریکی ’پراکس ایئر‘ کے ساتھ اشتراک میں کام کرتی ہے جبکہ دیگر دو فرمز میں ایک فرانسیسی ’ایئر لیکوئڈ‘ اور امریکی کمپنی ’ایئر پروڈکٹس‘ شامل ہیں۔
اس کے علاوہ کئی ممالک میں مقامی اور خطوں کی سطح پر بھی میڈیکل آکسیجن تیار کرنے والے ادارے بڑی تعداد میں موجود ہیں کیونکہ زیادہ فاصلے سے آکیسجن منگوائے جانے میں مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے۔
صنعتی طور پر ترقی یافتہ ممالک اس معاملے میں آگے ہیں کیونکہ یہاں صنعتیں صرف میڈیکل کے شعبے کے علاوہ بھی مدد فراہم کرسکتی ہیں جن میں سٹیل اور کیمیکل کی صنعتیں شامل ہیں۔
بھارتی فوج اپنے کارگو جہاز کے ذریعے آکسیجن کی کمی کے شکار علاقوں تک آکسیجن پہنچا رہی ہے جبکہ 22 اپریل کو آکسیجن ایکسپریس نامی ایک ٹرین بھی شروع کر دی گئی ہے۔
بھارتی فوج نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ وہ جرمنی سے 23 موبائل پروڈکشن یونٹس درآمد کر رہی ہے۔
اسی طرح فرانس بھی ایسے ہی آٹھ یونٹ بھارت بھجوانے کا ارداہ رکھتا ہے جو ایک دن میں دس ہزار مریضوں کو آکسیجن فراہم کر سکتے ہیں جبکہ اس کے علاوہ بھارتی ہسپتالوں کے لیے مائع آکسیجن کے دو سو ٹنز بھی فراہم کیے جائیں گے۔