’کفن میں جیب نہیں ہوتی۔ ہم کتنے بھی پیسے کمائیں ہمیں وہ ایک دن یہیں پر چھوڑ کر چلے جانا ہے۔ اگر ہم انسانیت کی خدمت کر کے اس دنیا سے رخصت ہو گئے تو اس سے بڑی دولت کوئی نہیں۔‘
یہ کہنا ہے بھارتی ریاست مہاراشٹر کے شہر ناگپور سے تعلق رکھنے والے 45 سالہ مسلمان تاجر پیارے ضیا خان معروف بہ پیارے خان کا جنہیں پورے شہر میں آکسیجن کی سپلائی کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔
بھارت میں ان دنوں انٹرنیٹ صارفین سے لے کر ٹی وی پر خبریں دیکھنے والے ناظرین پیارے خان کے بارے میں جاننے میں غیر معمولی دلچسپی لے رہے ہیں جس کی وجہ ان کی کاروباری زندگی اور خدمت خلق کا جذبہ ہے۔
1995 میں اپنی کاروباری زندگی کا آغاز ناگپور ریلوے سٹیشن کے باہر سنگترے بیچنے سے کرنے والے پیارے خان آج شہر کی سب سے بڑی ٹرانسپورٹ کمپنی ’اشمی روڈ کیریئرز پرائیویٹ لمیٹڈ‘ کے مالک ہیں جس کا سالانہ ٹرن اوور چار سو کروڑ بھارتی روپے (پانچ کروڑ 37 لاکھ امریکی ڈالرز سے زیادہ) ہے۔
ناگپور کے ہسپتالوں میں گذشتہ ہفتے جب کرونا (کورونا) وائرس سے متاثرہ مریض آکسیجن کی عدم دستیابی کی وجہ سے جان سے جانے لگے تو پیارے خان نے فوری طور پر 32 ٹن آکسیجن اور اس سے منسلک مشینری ہسپتالوں کو عطیہ کی جس پر ایک کروڑ روپے خرچہ آیا۔
پیارے ضیا خان نے انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو میں کہا: ’مہاراشٹر کے باقی حصوں کی طرح ناگپور کے حالات بھی بہت زیادہ خراب ہیں۔ ہمارا پیسہ بینکوں میں پڑا رہتا ہے۔ اگر لوگ نہیں بچیں گے تو اس پیسے کا کیا کام ہے؟‘
ان کا کہنا تھا: ’رمضان کا مقدس مہینہ چل رہا ہے۔ میرا ماننا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اس مقدس مہینے میں مجھ سے یہ نیک کام لینا تھا۔ نہیں تو ہم کون ہوتے ہیں کسی کی مدد کرنے والے۔ اوپر والا ہی ہم سے یہ کام کرواتا ہے۔‘
پیارے خان نے بتایا: ’میں نے گذشتہ ہفتے اخبار میں پڑھا کہ شہر کے ہسپتالوں کو آکسیجن کی شدید قلت کا سامنا ہے جو جان لیوا ثابت ہو رہی ہے۔ میں نے تہیہ کیا کہ کچھ نہ کچھ ضرور کروں گا۔ اسی دوران وفاقی وزیر برائے ٹرانسپورٹ نتن گڈکری، جن کا تعلق ناگپور سے ہی ہے، نے مجھے بلایا اور پوچھا کہ کیا آپ کچھ کر سکتے ہو۔ میں نے ایک دن کی مہلت مانگی اور دوسرے دن دو ٹینکرز میں 32 ٹن آکسیجن ناگپور پہنچا دی۔‘
ان کا کہنا تھا: ’سب سے بڑا مسئلہ ٹینکر ملنے کا تھا۔ میں نے بہت کوششوں کے بعد بنگلور سے کرائیوجینک گیس کے دو خالی ٹینکر منگوائے جن کا تین گناہ کرایہ ادا کرنا پڑا۔ پھر حکومت نے مجھے دو مختلف پلانٹ سے آکسیجن دلوائی جس کی پیمنٹ میں نے خود کی۔ چونکہ نزدیک میں آکسیجن کہیں بھی دستیاب نہیں تھی اس وجہ سے ہمیں یہ کافی دور سے لانی پڑی۔‘
پیارے خان نے بتایا کہ بھارتی حکومت نے اب پورے ناگپور اور پڑوسی شہروں میں آکسیجن کی سپلائی کی ذمہ داری انہیں سونپی ہے اور یہ خدمات وہ مفت فراہم کر رہے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کے بقول: ’مختلف جگہوں سے آکسیجن ٹینکرز ناگپور پہنچانا میرا کام ہے۔ مجھے ہر روز 350 میٹرک ٹن آکسیجن ناگپور پہنچانا پڑتا ہے اور یہ کام میں پوری ایمانداری سے انجام دے رہا ہوں۔ اپنے لوگوں کی جان بچانے کے لیے ہمیں کہیں سے بھی آکسیجن کیوں نہ لانا پڑے ہم لائیں گے۔ آپ کام کرنے کی نیت رکھتے ہیں تو راستے خدا دکھاتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ یہ قرآن مجید کی تعلیمات ہیں کہ آپ ضرورت کے وقت اپنے ملک اور اس میں رہنے والے لوگوں کے کام آئیں۔
’موجودہ پریشان کن حالات میں نتن گڈکری نے ناگپور واسیوں کی بہت مدد کی ہے۔ اگر وہ ذاتی طور پر مداخلت نہیں کرتے تو بہت لوگ مر جاتے۔ لیڈر ہوں تو ان کے جیسے۔ ان کے کہنے پر میں نے تین ٹینکر آکسیجن بھوپال بھی بھیجے۔‘
پیارے خان کون ہیں؟
ناگپور کی کچی آبادی تاج باغ میں جنم لینے والے پیارے خان کی ٹرانسپورٹ کمپنی کے پاس فی الوقت اپنی تین سو مال بردار گاڑیاں (ٹرک) ہیں۔ اس کے علاوہ تین ہزار وہ نجی مال بردار گاڑیاں ہیں جو اس کمپنی سے جڑی ہیں۔ کمپنی کے پانچ سو سے زیادہ ملازم ہیں۔
ناگپور میں اشمی روڈ کیریئرز پرائیویٹ لمیٹڈ کا کارپوریٹ آفس تین ایکڑ اراضی پر مشتمل ہے جس کی مالیت کروڑوں روپے ہے۔ اس کے علاوہ کمپنی کے بھارت بھر میں قریب ایک درجن برانچ آفسز ہیں۔
پیارے خان کی والدہ رئیسہ خاتون تاج باغ میں ایک چھوٹی سی کریانے کی دکان چلاتی تھی۔ اپنے گھر کی مالی ضرورتوں کے مدنظر پیارے خان نے 1995 میں ناگپور ریلوے سٹیشن کے باہر ٹوکری میں سنگترے بیچنے شروع کیے۔
پیارے خان کے مطابق: ’میرا جنم ناگپور کی ایک کچی آبادی تاج باغ میں ہوا ہے جہاں میرے والدین رہائش پذیر تھے۔ 2001 تک میں ناگپور ریلوے سٹیشن کے باہر سنگترے بیچ کر یا گاڑیاں دھو کر یا آٹو رکشہ چلا کر اپنا گزارا کرتا رہا۔ شروع سے ہی میری سوچ تھی کہ کچھ بڑا کرنا ہے۔ مجھ پر اللہ کا فضل و کرم رہا ہے۔ جب میں نے اپنی والدہ کے زیورات گروی رکھ کر آٹو رکشہ خریدا تو اس کی ماہانہ قسط 12 سو روپے تھی۔ میں نے زیادہ محنت کی اور ہر ماہ چھ ہزار روپے ادا کرتا تھا۔ اس طرح میں نے چھ مہینے میں آٹو کا پورا قرض اتار دیا۔‘
موسیقی کے شوقین پیارے خان آٹو رکشہ چلانے کے علاوہ آرکسٹرا یا موسیقی پروگرام منعقد کرنے والے گروہ کے ساتھ بھی کام کرتے تھے۔
’آٹو رکشہ چلانے کے دوران میں او پی سنگھ آرکسٹرا کا ایک رکن بن گیا اور ان کے پروگراموں میں کی بورڈ بجاتا تھا۔ ہمارا گروپ ناگپور میں ایک پروگرام کے ایک لاکھ روپے لیتا تھا۔ یہ وہ جگہ تھی جہاں میں نے کاروبار کے اصول سیکھے۔ میں نے سمجھا کہ اگر آپ لوگوں کو اچھی سروس دیں گے تو وہ اس کے عوض آپ کو اچھی قیمت دینے سے نہیں ہچکچائیں گے۔‘
2004 میں پیارے خان نے اپنا ٹرک خریدنے کی ٹھان لی۔ ’میں نے بہت سے بینکوں میں قرضے کے لیے درخواستیں دیں لیکن قرض ملنے کی بجائے دھکے کھائے۔ بالآخر آئی این جی ویسیا بینک نے انہیں 11 لاکھ روپے کا قرض دیا۔
ان کا کہنا تھا: ’اس بینک کے اہلکار پہلے میرے گھر آئے اور کہنے لگے کہ آپ تو کچی آبادی میں رہتے ہو اس لیے ہم آپ کو قرض نہیں دے سکتے۔ دو دن بعد مجھے فون آیا کہ اگر ہم آپ کو قرض دیں گے تو کیا آپ واپس کر سکیں گے۔ میں نے کہا کہ اگر آپ مجھ پر بھروسہ کر سکتے ہیں تو مہربانی کر کے مجھے قرض دیں۔ اسی سال میں نے اپنا ٹرک خریدا جس کو محض چھ ماہ بعد خطرناک حادثہ پیش آیا۔ دوستوں اور اکثر رشتہ داروں نے مجھ سے کہا کہ یہ کام تمہارے لیے ٹھیک نہیں ہے کیونکہ تم اپنا سب کچھ گنوا چکے ہو۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’ٹرانسپورٹ کے کام میں کہا جاتا ہے کہ اگر آپ کو کسی سے دشمنی نکالنی ہو تو اس کو ٹرک خریدنے کا مشورہ دو۔ مگر میرے اندر اتنا جنون اور ضد تھی کہ میں نے ہمت نہیں ہاری۔ ڈرائیور کو ہسپتال میں بھرتی کیا اور ٹرک کو درست کرنے کے لیے میکینک کے پاس چھوڑ آیا۔ میکینک نے ادھار میں مجھے ٹرک درست کر کے دے دیا۔ 2005 میں مزید تین گاڑیاں خریدیں اور آہستہ آہستہ گاڑیوں کی تعداد بڑھتی گئی۔‘
2007 میں پیارے خان نے اپنی ٹرانسپورٹ کمپنی اشمی روڈ کیریئرز پرائیویٹ لمیٹڈ قائم کی جو ان کی زندگی میں ایک گیم چینجر ثابت ہوئی۔
’جے ایس ڈبلیو سٹیل نامی کمپنی نے مجھے پہلے پانچ لاکھ روپے اور پھر میری سروسز دیکھ کر 60 کروڑ روپے کا کام دیا۔ یہ کام میں نے بہت ہی لگن اور ایمانداری سے انجام دیے۔ بعد ازاں اسی کمپنی نے مجھے چار سو کروڑ روپے کا کام دیا۔ اس دوران میں ٹاٹا سٹیل لمیٹڈ کا وینڈر بن گیا جہاں میں نے کمپنی چلانے کے حفاظتی تدابیر سیکھے۔‘
2016 میں کنسٹرکشن انجینئرنگ کمپنی ’کے ای سی انٹرنیشنل‘ نے پیارے خان کی کمپنی کو ٹرانسفارمر بھوٹان لے جانے کا ایک چیلنج سے بھرپور کام دیا۔
’میں نے ٹرانسفارمر بھوٹان لے جانے کا وہ پروجیکٹ ہاتھ میں لیا جس پر کام کرنے سے بھارت کے سبھی ٹرانسپورٹروں نے انکار کیا تھا۔ گاڑیوں کی اونچائی ساڑھے 17 فٹ تھی اور جس راستے سے گاڑیوں کو چلنا تھا اس میں پڑنے والی سرنگ کی اونچائی محض ساڑھے 13 فٹ تھی۔
’ٹرانسپورٹروں کا کہنا تھا کہ ہم سرنگ کو توڑ کر گاڑیاں نہیں گزار سکتے ہیں۔ میں نے اپنا دماغ لگایا اور اس کام کو چیلنج کے طور پر لیا۔ میں نے سرنگ کے نیچے چار فٹ زمین کھودی اور سامان بھوٹان پہنچا دیا۔ اس پروجیکٹ کے بعد ہماری کمپنی کو پیچھے مڑ کر دیکھنے کی ضرورت نہیں پڑی۔ پھر ہمیں نیپال، بنگلہ دیش اور دبئی میں بھی کام ملا۔‘
2018 میں انڈین انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ احمد آباد اور ’مہندرا ٹرک اینڈ بس‘ نامی کمپنی نے پیارے خان کو ’ینگ ٹرانسپورٹ انٹرپیونر‘ کے ایوارڈ سے نوازا۔ اس ایوارڈ کے لیے منعقد ہونے والے مقابلے میں دو امریکی ’ٹرانسپورٹروں‘ نے بھی حصہ لیا تھا۔ اس کے علاوہ انہیں کئی دیگر ایوارڈ بھی مل چکے ہیں۔
دسویں اور بارہویں جماعت میں دو بار فیل
پیارے خان نے دسویں جماعت میں فیل ہونے کے بعد اپنی پڑھائی چھوڑ دی تھی لیکن 2015 میں پیٹرول پمپ لائسنس نے انہیں پھر سے امتحانات میں بیٹھنے پر مجبور کیا۔
’2015 میں مجھے پیٹرول پمپ لگانا تھا۔ اس کی لائسنس حاصل کرنے کے لیے دسویں جماعت پاس ہونا لازمی تھا۔ بہت سے لوگوں نے بتایا کہ پیسے خرچ کر کے سرٹیفکیٹ حاصل کر لو۔ میرا جواب تھا کہ میں بے ایمانی نہیں کر سکتا۔ میٹرک کا امتحان دیا تو دو بار فیل ہوا، لیکن تیسری بار بہت محنت کر کے میں نے میٹرک کا امتحان پاس کر لیا۔ بارہویں جماعت میں بھی دو بار فیل ہوا مگر تیسری بار پاس کر لیا۔ اب میں گریجویشن کر رہا ہوں۔‘
پیارے خان کے مطابق کاروباری زندگی میں ترقی کے لیے عزم اور بہتر سروس بہت ضروری ہے۔
’کاروبار میں کبھی جھوٹ نہ بولیں۔ ہمیں اپنے کلائنٹ، جو ہم پر بھروسہ کر کے کام دیتے ہیں، ان کے ساتھ ہر ایک چیز شیئر کرنی چاہیے۔ ہم جھوٹ بولیں گے تو ان کی نظروں میں ہماری ساکھ خراب ہو جاتی ہے۔‘
پیارے خان نے بتایا کہ وہ نماز پڑھے بغیر کبھی آفس نہیں آتے ہیں کیونکہ ان کے بقول نماز پڑھنے سے انسان صحیح راستے پر چلتا ہے۔
’میرے پاس جو کچھ بھی ہے وہ اللہ کا دیا ہوا ہے۔ نہیں تو میرے جیسے کام کرنے والے ہزاروں لاکھوں لوگ ہیں۔ میں اوپر والے پر بہت بھروسہ کرنے والا انسان ہوں۔ اللہ اور ان کے رسول کے تئیں میرا بہت لگائو ہے۔ ان کی وجہ سے ہی میں اس مقام پر کھڑا ہوں۔‘