پاکستان تحریک انصاف کی وفاقی حکومت نے کالعدم تحریک لبیک پاکستان پر پابندی لگانے کے 15 روز کے بعد ہی اس تنظیم کو سیاسی اور دوسری سرگرمیوں میں حصے لینے کی اجازت دینے سے متعلق جائزہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔
جمعے کو وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے اسلام آباد میں ایک اجلاس کی صدارت کی، جس میں کالعدم ٹی ایل پی پر سے پابندی اٹھانے سے متعلق درخواست کا جائزہ لیا گیا۔
وزارت داخلہ کے ایک سینئیر اہلکار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وفاقی حکومت نے کالعدم ٹی ایل پی پر سے پابندی اٹھانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
تاہم ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’اب دیکھنا یہ ہے کہ 15 روز قبل لگائی گئی پابندی کیسے اٹھائی جائے۔‘
کالعدم ٹی ایل پی پر سے پابندی اٹھانے کا جائزہ لینے کے لیے وزارت داخلہ نے تین رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے، جو داخلہ اور قانون کی وزارتوں کے سینئیر اہلکاروں پر مشتمل ہو گی۔
واضح رہےکہ وفاقی حکومت نے 15 اپریل کو کالعدم ٹی ایل پی پر پابندی عائد کی تھی۔
کالعدم تحریک لبیک پاکستان نے دو روز قبل اس پابندی کے خلاف وزارت داخلہ سے رجوع کرتے ہوئے نظر ثانی کی درخواست کی تھی۔
ٹی ایل پی کی جانب سے وزارت داخلہ کے پاس جمع کروائی گئی درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے نقص امن و کارِ سرکار میں مداخلت کے الزامات پر تنظیم پر عائد کی گئی پابندی حقائق کے منافی ہے، لہذا وفاقی حکومت اپنے فیصلے پر نظرثانی کرتے ہوئے تحریک لبیک پاکستان پر سے پابندی ہٹائے۔
درخواست میں مزید کہا گیا تھا کہ تحریک لبیک دہشت گرد تنظیم نہیں ہے، بلکہ الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ سیاسی جماعت ہے اور اس پر دہشت گردی کا الزام غلط ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ٹی ایل پی پر پابندی اس کے مرکزی رہنما مولانا سعد حسن رضوی کی لاہور میں گرفتاری کے بعد ملک بھر میں ہونے والے پُر تشدد احتجاج کے بعد لگائی گئی تھی۔
یاد رہے کہ چند مہینے قبل وفاقی حکومت اور کالعدم ٹی ایل پی کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا تھا، جس کے تحت پاکستان سے فرانس کے سفیر کی واپسی سے متعلق قرارداد قومی اسمبلی میں پیش کی جانی تھی۔
تاہم اس معاہدے پر عمل درآمد میں تاخیر کے باعث کالعدم مذہبی تنظیم نے ملک بھر میں احتجاج کی کال دی، جو سعد رضوی کی گرفتاری کی وجہ بنی، جس پر کالعدم ٹی ایل پی نے ملک بھر میں احتجاج کیا جس میں کم از کم پانچ پولیس اہلکار ہلاک اور کئی افراد زخمی ہوئے، جبکہ ٹی ایل پی کا دعوی ہے کہ ان کے کارکن بھی پولیس تشدد کے باعث چل بسے۔
اس پرتشدد احتجاج کے بعد وفاقی حکومت نے انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کے تحت ٹی ایل پی پر پابندی عائد کی تھی۔
پابندی سے متعلق سرکاری نوٹیفیکیشن میں کہا گیا تھا کہ تحریک لبیک پاکستان ملک میں دہشت گردی اور دوسرے گھناؤنے جرائم میں ملوث ہونے کے ساتھ ساتھ عوام کو اُکسا کر انتشار پیدا کرنے سمیت قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کی اموات اور زخمی کرنے میں بھی ملوث ہے۔
کالعدم ٹی ایل پی پر پابندی کے بعد ملک بھر میں مزید پرتشدد احتجاج ہوئے۔
پابندی کے اعلان کے بعد وفاقی حکومت نے تحریک لبیک کے خلاف سپریم کورٹ آف پاکستان میں ایک ریفرنس دائر کرنا تھا، جس کی منظوری پر تنظیم کو سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے سے روکا جاسکتا تھا، تاہم وفاقی حکومت نے اس سلسلے میں اعلیٰ عدالت سے رجوع کرنے سے گریز کیا تھا۔