’میں گذشتہ 16 مہینوں سے پاکستان میں ہوں۔ میری آن لائن کلاسز تو ہو رہی ہیں لیکن وقت میں تبدیلی اور یہاں (پاکستان میں) لیبز کی عدم موجودگی کی وجہ سے پڑھائی شدید متاثر ہو رہی ہے۔ مجھے خدشہ ہے کہ میری پی ایچ ڈی کی ڈگری ضائع نہ ہو جائے۔‘
یہ کہنا تھا خیبر پختونخوا کے ضلع چارسدہ کے محمد رضوان (فرضی نام کیونکہ وہ نہیں چاہتے ان کا اصل نام ظاہر کیا جائے ) کا جو چین میں سکالرشپ پر الیکٹریکل انجینیئرنگ میں پی ایچ ڈی کے طالب علم ہیں۔
رضوان کو 2018 میں چین کی ایک یونیورسٹی میں سکالرشپ ملی تھی۔ تقریباً دو سال مکمل ہونے کے بعد مبینہ طور پر چین کے شہر ووہان سے دسمبر 2019 میں شروع ہونے والی کرونا وبا نے پوری دنیا کو لپیٹ میں لے لیا۔
رضوان ان دنوں میں چین میں ہی تھے اور وہ چاہتے تھے کہ چھٹیوں میں گھر نہ جائیں بلکہ چین میں رہ کر اپنی پی ایچ ڈی کا لیب ورک مکمل کر لیں۔
تاہم وبا کی وجہ سے چین میں تمام تعلیمی ادارے بند ہوگئے۔ ایسے میں انہیں مجبورا پاکستان واپس آنا پڑا۔
انھوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ جنوری 2020 میں پاکستان آ گئے تھے۔ ’چین میں عموماً نیا سمسٹر فروری یا مارچ میں شروع ہوتا ہے۔ تاہم وبا کی وجہ سے چین نے ہمیں واپس جانے سے روک دیا۔ یوں ہم پاکستان میں پھنس گئے۔‘
انہوں نے بتایا کہ پاکستان آنے کے بعد ان کی آن لائن کلاسز ہو رہی ہیں تاہم مسئلہ یہ ہے کہ پی ایچ ڈی کے لیے لیب ورک بھی ضروری ہے جس کے لیے پاکستان میں سہولت نہیں۔
انھوں نے بتایا کہ ستمبر 2020 سے انہیں چین سے وظیفہ بھی نہیں مل رہا کیونکہ وہ یونیورسٹی میں رہنے کی صورت میں ملتا ہے۔
’یہی وجہ ہے کہ میں پی ایچ ڈی کے لیے لیب میں استعمال ہونے آلات پاکستان میں نہیں خرید سکتا کیونکہ اس پر بہت خرچہ آتا ہے۔‘
محمد رضوان کے مطابق اس ساری صورتحال سے ان کی پڑھائی شدید متاثر ہوئی ہے اور ان سمیت چین میں پڑھنے والے پاکستانی طلبا نے بارہا اپنی یونیورسٹیز کو اس خدشے سے آگاہ کیا ہے، لیکن ابھی تک ہمیں چین واپس جانے کی اجازت نہیں مل رہی۔
’اب تو کرونا ویکسین بھی لگنا شروع ہو گئی ہے۔ ہم اس کے لیے بھی تیار ہیں کہ ہم چین جا کر 14 دن اپنے خرچے پر قرنطینہ کر لیں گے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے سوال کیا کہ پی ایچ ڈی کا طالب علم کیسے صرف آن لائن کلاسز سے سیکھ سکتا ہے؟ رضوان کو اپنی یونیورسٹی کی آخری ای میل مارچ 2020 میں موصول ہوئی تھی۔
اس ای میل (جس کی کاپی انڈپیںڈنٹ اردو کو دکھائی گئی ) میں لکھا تھا کہ کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے تدابیر پر کام ہو رہا ہے، اس لیے غیر ملکی طلبا کو چین واپس آنے کی اجازت نہیں۔
اگر کوئی واپس آیا تو ان کے خلاف یونیورسٹی قوانین کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔ رضوان اکیلے نہیں جو اپنی تعلیم کے لیے پریشان ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ صرف 60 طلبا تو ان کی یونیورسٹی کے ہیں۔
اس کے علاوہ میڈیکل یعنی ایم بی بی ایس کے طلبا بھی پاکستان میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ’اندازہ لگائیں کہ ایم بی بی ایس کرنے والا طالب علم کس طرح آن لائن تعلیم حاصل کر کے ڈاکٹر بنے گا۔‘
پاکستان کے سرکاری خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان (اے پی پی ) کے مطابق چین میں 28 ہزار سے زائد پاکستانی طلبہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں، جو چین میں غیر ملکی طلبہ کی تیسری بڑی تعداد ہے۔
سب سے زیادہ تعداد (50 ہزار سے زائد) شمالی کوریا کے طلبہ ہیں جبکہ دوسرے نمبر پر تھائی لینڈ ہے جس کے 28 ہزار 608 طلبہ چین میں مختلف شعبوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
چین میں مجموعی طور پر 196 ممالک کے چار لاکھ 92 ہزار سے زائد طلبہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور 2018 کے مقابلے میں 2019 میں اس تعداد میں 0.62 فیصد اضافہ دیکھنے کو ملا۔
چین میں غیر ملکی طلبہ میں 85 ہزار سے زائد ماسٹر اور ڈاکٹریٹ کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ چینی حکومت کا موقف ہے کہ جب تک حالات سازگار نہیں ہوتے غیر ملکی طلبہ آن لائن کلاسز لیں۔
دسمبر 2020 کو چین کے وزیر خارجہ وانگ ونبین نے ایک پریس کانفرنس میں اس مسئلے سے جڑے سوال کا جواب دیتے بتایا تھا کہ چینی حکومت غیر ملکی طلبہ کے حقوق اور جائز مطالبات کا ہر صورت خیال رکھے گی۔
’یہ چین کی جامعات کی ذمہ داری ہے کہ ایسے طلبہ کے جائز مسائل حل کیے جائیں اور ان کے لیے آن لائن کلاسز کا باقاعدہ انتظام کیا جائے۔‘
اس سارے معاملے پر انڈپینڈنٹ اردو نے وزیر اعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے اوورسیز پاکستانی زلفی بخاری سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
بعض پاکستانی طلبہ ایسے بھی ہیں جو وبا کے دنوں میں چین سے باہر نہیں نکلے یعنی پاکستان واپس نہیں آئے اور اب وہاں پر ان کو کوئی مسئلہ درپیش نہیں۔
تحریم عظیم بھی ان طلبہ میں سے ایک ہیں، جو جنوری 2020 میں سردیوں کی چھٹیاں ہونے کے باوجود پاکستان نہیں آئیں۔
تحریم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جنوری میں چھٹیوں کے وقت چین میں انہیں صرف چار مہینے ہوئے تھے، ایسے میں وہ واپس پاکستان نہیں آئیں۔
انہوں نے بتایا، ’جو طلبہ چین سے نکل گئے ان کے لیے بیجنگ نے پالیسی تبدیل کرتے ہوئے ویزے منسوخ کر دیے اور اب کسی کو بھی چین آنے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔‘
تحریم سے جب پوچھا گیا کہ آیا وہاں پر یونیورسٹیاں کھلی ہیں تو انہوں نے بتایا، ’ہمارے لیے سب کچھ نارمل ہے اور یونیورسٹیاں کھلی ہیں۔ تاہم غیر ملکی طلبہ کو آن لائن کلاسز لینے کی اجازت ہے۔‘