اندھیری راتوں میں جب شہروں کے مکین خواب غفلت کے مزے لے رہے ہوتے ہیں تو کچھ لوگ ان کے گھروں کی حفاظت کے لیے جاگتے رہتے ہیں، جنہیں 'نائٹ واچ مین' کہا جاتا ہے لیکن ٹیسٹ کرکٹ میں نائٹ واچ مین کی اصطلاح کسی اچھے مستند بلے باز کو بچانے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔
یعنی جب دن کا اختتام قریب ہو اور کسی نئے مستند بلے باز کو پچ پر آنا پڑ جائے تو اس کی وکٹ بچانے کے لیےکسی آخری نمبر کے کھلاڑی کو قربانی کا بکرا بناکر بھیج دیا جاتا ہے جس کو قلعہ بند ہوکر حریف ٹیم کی بولنگ کا مقابلہ کرنا ہوتا ہے اور خطرناک بولنگ کے سامنے خود سے زیادہ اپنے آؤٹ ہونے کو بچانا پڑتا ہے تاکہ بڑے بلے باز کو نہ کھیلنے آنا پڑے۔
ٹیسٹ کرکٹ میں یہ سلسلہ کب شروع ہوا اس کا کوئی باقاعدہ ریکارڈ نہیں ملتا ہے لیکن خیال کیا جاتا ہے کہ یہ طریقہ باقاعدگی سے 30 کی دہائی میں شروع کیا گیا جب آسٹریلیا اور انگلینڈ نے نائٹ واچ مین بھیجنے کا سلسلہ معمول بنالیا لیکن اس کا شدت سے استعمال 50 کی دہائی میں ہونے لگا اور اب یہ ایک مروجہ اصول بن گیا ہے۔
نائٹ واچ مین اگرچہ نچلے درجے کے وہ کھلاڑی ہوتے ہیں، جن کی اصل طاقت بولنگ ہوتی ہے اور بلے بازی کی صلاحیت محض کچھ رنز ہی ہوتی ہے لیکن ان کی محتاط بیٹنگ ٹیم کے کام آجاتی ہے۔ وہ کسی اچھے بلے باز کو بچانے کا کام تو کرتے ہیں لیکن بعض اوقات مخالف ٹیم کے لیے سر درد بن جاتے ہیں۔ یعنی وہ آؤٹ ہونا تو مشکل ہوتے ہی ہیں اور مزید رنز بھی کرجاتے ہیں۔
کرکٹ کی تاریخ میں پانچ نائٹ واچ مین ایسے ہیں جو سنچریاں بناگئے ہیں۔
سب سے بڑی اننگز جیسن گلپسی
2006 میں بنگلہ دیش کے خلاف آسٹریلیا کے اوپنر ہیڈن جب کھیل ختم ہونے سے کچھ دیر پہلے آؤٹ ہوئے تو جیسن گلپسی نائٹ واچ مین بن کر آئے اور اگلے دن تک جمے رہے۔ گلسپی نے کرکٹ کی تاریخ میں کسی نائٹ واچ مین کی حیثیت سے پہلی ڈبل سنچری سکور کی۔ وہ 201 رنز بناکر ناٹ آؤٹ رہے۔
سب سے پہلی سنچری
پاکستان کے سپن بولر نسیم الغنی تاریخ کرکٹ کے سب سے پہلے سنچری بنانے والے نائٹ واچ مین ہیں۔ 1962 میں لارڈز ٹیسٹ کی دوسری اننگز میں مشتاق محمد جب کھیل ختم ہونے سے کچھ دیر قبل آؤٹ ہوئے تو کپتان جاوید برکی نے نسیم الغنی کو نائٹ واچ مین بھیجا تاکہ امتیاز احمد کی وکٹ بچائی جاسکے۔
نسیم الغنی نے کپتان کو مایوس نہیں کیا اور شام کا آخری وقت آرام سے گزار لیا لیکن اگلے دن جاوید برکی کے ساتھ 197 کی رنز کی پارٹنرشپ کی اور اپنی واحد سنچری بناکر اولین کھلاڑی کا اعزاز حاصل کرلیا۔
نائٹ واچ مین کی حیثیت سے اب تک چھ سنچریاں بنائی جاچکی ہیں جن میں مذکورہ بالا کے علاوہ آسٹریلیا کے ٹونی من، بھارت کے سیدکرمانی اور جنوبی افریقہ کے مارک باؤچر شامل ہیں۔
ان میں باؤچر کا منفرد اعزاز یہ ہے کہ وہ دو دفعہ یہ کارنامہ انجام دے چکے ہیں۔ انہوں نے 1999 میں زمبابوے اور انگلینڈ کے خلاف سنچریاں بنائی ہیں۔
نائٹ واچ مین کا منفرد واقعہ
1936-37کی ایشز سیریز میں نائٹ واچ مین کا عجیب واقعہ پیش آیا۔ آسٹریلیا کی ٹیم مہمان ٹیم انگلینڈ سے پہلے دو ٹیسٹ ہار چکی تھی اور تیسرا ٹیسٹ میلبورن میں کھیلا جارہا تھا۔
سر ڈون بریڈ مین کینگروز کی پہلی دفعہ کپتانی کررہے تھے اور آسٹریلین بورڈ کوشک تھا کہ سینئیر کھلاڑی بریڈمین سے تعاون نہیں کررہے ہیں۔
بریڈ مین نے پہلی اننگز میں جب بیٹنگ کی تو انہیں احساس ہوا کہ پچ بہت خراب ہے اور مکمل دھوپ نہ لگنے سے اوپری سطح پر گیند چپک رہی ہے اور رک کر آرہی ہے۔ انہوں نے جیسے تیسے 200 رنز کیے اور نو کھلاڑیوں پر اننگز ڈیکلئیر کردی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انگلینڈ کے کپتان گبی ایلن بھی پچ سمجھ چکے تھے اور ان کی بیٹنگ میں جب پچ اور مشکل ہوگئی اور 76 رنز پر نو کھلاڑی آؤٹ ہوگئے تو انہوں نے اننگز ڈیکلئیر کردی تاکہ آسٹریلیا دوبارہ جلد از جلد کھیلنے آئے اور جلد شکار ہوجائے۔
ایسے میں لیجنڈ ڈونلڈ بریڈمین نے انوکھی چال چلی اور اپنے ریگولر اوپنرز کی بجائے آخری نمبر پر کھیلنے والے بولرز فلیٹ ووڈ سمتھ اور بل اوریلی کو اوپنر بھیج دیا، جس پر دونوں نے احتجاج بھی کیا لیکن بریڈمین نے سمجھایا کہ تمہیں بس آج کی شام کا کچھ وقت نکالنا ہے۔
تیسرے دن تک پچ صحیح ہوجائے گی تو ہم پھر سنبھال لیں گے۔ وہ دونوں خیر زیادہ دیر تو نہ رک سکے لیکن اگلے دو بلے باز جو بولرز ہی تھے، انہوں نے مطلوبہ وقت نکال لیا اور تیسرے دن جب چوتھی وکٹ گری تو بریڈمین خود کھیلنے آگئے اور ان کے ساتھ دوسری طرف ریگولر اوپنر فنگلیٹن تھے۔
پچ سوکھ کر پتھر ہو چکی تھی اور گیند بلے پر مناسب آرہی تھی۔ بس پھر کیا تھا بریڈمین اور فنگلیٹن نے 400 رنز کی پارٹنرشپ بنادی، جس میں بریڈمین نے 270 اور فنگلیٹن نے 136 رنز بنائے۔
اس طرح 564 رنز کے ٹوٹل نے انگلینڈ کی کمر توڑ دی۔ دوسری اننگز میں 689 رنز کے ہدف نے انگلینڈ ٹیم کی آنکھوں سے بینائی چھین لی اور تمام تر کوششوں کے باوجود انگلینڈ 365 رنز سےٹیسٹ ہار گیا۔
اس جیت نے کینگروز میں نئی روح پھونک دی اور یوں اگلے دونوں ٹیسٹ جیت کر ایشز کا تاج آسٹریلیا نے اپنے سر پر سجالیا۔
پوری ٹیم کے نائٹ واچ مین بنانے کی یہ حکمت عملی شاید بریڈمین جیسے بڑے اور باہمت کپتان ہی اختیار کرسکتے تھے، جنہوں نے اپنی ہمت اور ذہانت سے شکست کو فتح میں بدل دیا۔