ٹیسٹ کرکٹ کو اگر اس کھیل کی روایتی اور مکمل شکل کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ کئی صدیوں قبل شروع ہونے والا یہ کھیل انیسویں صدی تک مختلف قوانین کے تحت کھیلا جاتا رہا۔ اس عرصے میں دن مقرر تھے اور نہ آج جیسے سخت قوانین۔
1877 میں جب ٹیسٹ کرکٹ کا باقاعدہ آغاز ہوا اور میلبرن کے گراؤنڈ میں پہلا ٹیسٹ میچ کھیلا گیا تو یہ میچ پانچ دنوں میں ختم ہو گیا، حالانکہ ان دنوں ٹیسٹ میچ کے دن مقررنہیں تھے اور کھیل اس وقت تک جاری رہتا جب تک دونوں ٹیمیں دو ،دو اننگز کھیل کر آؤٹ نہ ہو جاتیں۔
اس وقت انگلینڈ اور آسٹریلیا دو ہی ایسے ملک تھے، جہاں کرکٹ منظم انداز میں کھیلی جارہی تھی اور ڈومیسٹک کرکٹ کا ایک نظام قائم تھا اور اس نظام سے ہی دو اننگز کے ٹیسٹ کا اجرا ہوا۔
1877 سے دوسری جنگ عظیم کے آغاز تک تمام ٹیسٹ لامحدود وقت کے ہوتے ،تاہم زیادہ تر ٹیسٹ پانچ دن میں ختم ہوجاتے تھے۔
کرکٹ کی تاریخ میں کلُ 99 ٹیسٹ بنا کسی وقتی حد کے کھیلے گئے، جن میں چند ہی ٹیسٹ ایسے تھے جو پانچ دن سے زیادہ چلے ۔ ان میں مشہور زمانہ 1939 سیریز کا انگلینڈ اور جنوبی افریقہ کے درمیان ڈربن ٹیسٹ بھی ہے، جو مسلسل نو دن چلتا رہا اور نویں دن بھی اس لیے ختم کیا گیا کہ انگلینڈ جانے والا بحری جہاز روانہ ہورہا تھا اور اگلا جہاز ایک ماہ بعدآنا تھا ویسے اس ٹیسٹ میں چار دن توبارش کی نذر ہوگئے تھے۔
1939 تک کھیلے گئے ٹیسٹ میچوں میں آسٹریلیا میں کئی میچ چوتھے دن ہی ختم ہوگئے کیونکہ اس زمانے میں پچ کو ڈھانپا نہیں جاتا تھا اور رات کی اوس اور دن کی سخت دھوپ سے وکٹ ٹوٹ پھوٹ کر بولروں کے لیے جنت بن جاتی تھی جس پر بیٹنگ کرنا بہت مشکل ہوتا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دوسری جنگ عظیم کے بعد جب ٹیسٹ کرکٹ دوبارہ شروع ہوئی تو سوچا گیا کہ اس کا ایک محدود دورانیہ ہونا چاہیے تاکہ ایک مقر کردہ نظام میں ٹیسٹ کرکٹ ہوسکے ۔تاہم ہر ملک اپنی سہولت سے دنوں کا انتخاب کرتا تھا کہ کتنے دن ٹیسٹ میچ کھیلنا ہے۔
1946 کا نیوزی لینڈ ۔آسٹریلیا ٹیسٹ صرف تین روز کا تھا، اسی طرح انگلینڈ اور پاکستان نے بھی اولین دور میں ٹیسٹ چار روز کے کھیلے۔
1970 تک ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے والے ملک چار اور پانچ دن کے ٹیسٹ کھیلتے رہے لیکن انگلینڈ ، جہاں شروع میں چار روزہ ٹیسٹ کھیلے جاتے تھے، اس نے 1948 کی ایشیز سیریز سے پانچ دن کے ٹیسٹ کھیلنے کا فیصلہ کرلیا ۔
اس دوران آسٹریلیا، جنوبی افریقہ ، نیوزی لینڈ ،بھارت ،پاکستان اور ویسٹ انڈیز چار اور پانچ دن کے ٹیسٹ کھیلتے رہے۔
ستر کی دہائی میں ہر جگہ پانچ دن کے ٹیسٹ کھیلے جانے لگے جبکہ اس دوران ایک دن آرام کا بھی ہوتا تھا۔ اس زمانے میں زیادہ تر ٹیسٹ میچوں کا نتیجہ ڈرا ہوتا تھا تو سوچ و بچار کے بعد آرام کا دن نکال دیا گیا تاکہ لوگ اکتا نہ جائیں۔
اس دوران چند ٹیسٹ چار دن کے بھی کھیلے گئے جیسے کہ اس سال انگلینڈ اور آئر لینڈ کا اولین ٹیسٹ، جسے چار دن تک محدود رکھا گیا ۔یہ ایک تجربہ بھی تھا جس کے ذریعے آئی سی سی ٹیسٹ کرکٹ میں نئی دلچسپیاں تلاش کر رہی تھی۔
محدود اوورز کی کرکٹ کی تیزی اور مقبولیت نے ٹیسٹ کرکٹ کو خاصا متاثر کیا۔ لوگوں کی دلچسپی کسی ایسے میچ میں زیادہ ہوتی ہے جس کا نتیجہ جلد نکل آئے اور وقت بھی زیادہ برباد نہ ہو۔
آئی سی سی نے نئی روش اور جدید پیمانوں کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کیا کہ ٹیسٹ کرکٹ میں مقابلے کی فضا قائم کی جائے تاکہ کھلاڑیوں اور شائقین کا شوق بڑھ سکے کیونکہ ماضی قریب میں کئی بڑے کھلاڑیوں نے ٹیسٹ کرکٹ چھوڑ کر محدود دورانیےکی کرکٹ کو اپنا لیا جس سے ٹیسٹ کرکٹ کچھ ماند بھی پڑ گئی۔
آئی سی سی نے اس سال ٹیسٹ کرکٹ میں چیمپئین شپ کا آغاز کیا جس میں تمام ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے والے ملک ایک دوسرے کے خلاف کھیلیں گے، اس کا مقصد مقابلے کی فضا بڑھانا ہے۔
اس دلچسپی کو آگے بڑھاتے ہوئے اب ایک تجویز سامنے آئی ہے کہ ٹیسٹ میچ کو چار دن تک محدود کردیا جائے جس پر موجودہ اور سابق کھلاڑیوں کا ملا جلا رد عمل سامنے آیا ہے۔
چار دن کے ٹیسٹ کے سب سے بڑے علم بردار بھارت اور آسٹریلیا ہیں، جو محدود اوورز کی کرکٹ کے مقابلوں کو بڑھانا چاہتے ہیں ۔
ایک تجزیے کے مطابق 2015 سے 2023 تک کھیلے جانے والے شیڈولڈ ٹیسٹ میچ اگر چار دن کے رکھے گئے ہوتے تو کرکٹ کے لیے مزید 335 دن مل سکتے تھے اور مزید محدور دورانیے کی کرکٹ کھیلی جاسکتی تھی جبکہ ماضی میں بہت سے ٹیسٹ تو ویسے بھی تین یا چار دن میں ہی ختم ہوگئے۔
انگلینڈ کرکٹ بورڈ بھی اس تجویز کا ہمنوا نظر آتا ہے، البتہ پاکستان ،سری لنکا، نیوزی لینڈ اور جنوبی افریقہ تا حال خاموش ہیں۔
ایسے کھلاڑی جو ٹیسٹ کے ساتھ ٹی ٹوئنٹی اور ون ڈے بھی کھیلتے ہیں وہ تو حمایتی ہیں لیکن کچھ کرکٹرز سخت مخالف ہیں۔
انگلش کپتان جو روٹ کہتے ہیں کہ اگر ایسا ہو تو وہ تیار ہیں، اس سے کرکٹ کا فائدہ ہوگا، ہم تو تین دن میں بھی کھیل سکتے ہیں۔
سابق کپتان ناصر حسین اس سے متفق نہیں ۔ان کے خیال میں ایسا کرنے سےسپن بولنگ ختم ہوجائے گی کیونکہ ان کی بولنگ شروع ہی چوتھے اور پانچویں دن ہوتی ہے۔
انگلینڈ کے نائب کپتان جوز بٹلر کہتے ہیں یہ صحیح وقت ہے کہ ہم کچھ ایسا نیا کریں، ٹیسٹ کرکٹ بہت اہم ہے لیکن ہر چیز تبدیلی کی محتاج ہوتی ہے تاکہ جدت آسکے۔
لارڈز کے ہیرو اورسابق ٹیسٹ اوپنر محسن خان نے پانچ روزہ ٹیسٹ کرکٹ کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ٹیسٹ کرکٹ ہی اصل کرکٹ ہے جہاں کھلاڑی کا ٹیلنٹ، اس کا اسٹیمنااور اس کی ذہنی مضبوطی نظر آتی ہے۔’ ایک دن کم کرنے سے ٹیسٹ کرکٹ کی خوبصورتی ختم ہوجائے گی اسے پانچ روز ہی رہنا چاہیے۔‘ انھوں نے سوال کیا کہ ایک دن کم کرنے سے کیا کرکٹ بڑھ جائے گی یا کم ہوجائے گی؟
آسٹریلیا کے سابق فاسٹ بولر گلین مک گرا نے تو اس تجویز کو فوراً مسترد کردیا ۔انھوں نے کہا ’ میں اس فارمیٹ میں کوئی کمی دیکھنا پسند نہیں کروں گا ،یہ کھیل کی تباہی ہوگی۔‘
آسٹریلین سپنر ناتھن لیون نے قطعاً مخالفت کرتے ہوئے اسے خراب تجویز قرار دیا ۔ان کے خیال میں اگر ایساہوا تو پھر زیادہ تر ٹیسٹ میچ ڈرا ہوں گے۔’ آپ کیا چاہتے ہیں کہ ہم روز بس ون ڈے سٹائل میچ کھیلتے رہیں۔‘
جنوبی افریقہ کے مایہ ناز فاسٹ بولر ویرنون فلینڈر نے مخالفت کرتے ہوئے کہا ’ مجھے امید ہے کہ پانچ روزہ کرکٹ ختم نہیں ہوگی۔‘
آسٹریلین کپتان ٹم پین نے کہا ’ہمیں اس بارے میں سوچنا چاہیے، میں تو کہتا ہوں چھ دن کا ٹیسٹ کردیں، لیکن ایسا نہیں ہوسکتا، میں پانچ دن کے کھیل کو ہی بہتر سمجھتا ہوں، یہی کرکٹ کا حسن ہے۔‘
پاکستان کے جادوگر سپنر سعید اجمل نے یکسر مخالفت کرتے ہوئے ٹیسٹ کرکٹ کو پانچ دن رکھنے کا مطالبہ کیا۔ انھوں نے کہا کہ ایسا کرنے سے سپنرز کا کردار ختم ہوجائے گا۔
پاکستان کے راولپنڈی ایکسپریس شعیب اختر ٹیسٹ کرکٹ کو چار روز تک محدود کرنے کو بہتر نہیں سمجھتے۔
رمیض راجہ جو ٹیسٹ کرکٹ کے دلدادہ ہیں ، نےپانچ دن کے کھیل کی حمایت کرتے ہوئے کہا ان کے خیال میں کوئی نیا تجربہ کرنا برا نہیں تاہم اس کے تمام پہلوؤں پر نظر رکھنا ہوگی۔
وسیم اکرم کے خیال میں ایشین وکٹوں پر چار دن کے ٹیسٹ کبھی فیصلہ کن نہیں ہوسکتے البتہ آسٹریلیا اور انگلینڈ میں قابل عمل ہوسکتے ہیں۔
چار دن کے ٹیسٹ میچ کی تجویز آئی سی سی کی کرکٹ کمیٹی کی میٹنگ میں رکھی جائے گی جس کی صدارت سابق بھارتی کپتان انیل کمبلے کریں گے ۔
ایک سپن بولر کی حیثیت سے بظاہر ان کا ووٹ پانچ دن کی ٹیسٹ کرکٹ کے لیے ہو گا لیکن بھارتی کرکٹ بورڈ کے دباؤ کو وہ کتنا برداشت کرسکیں گے، جس کے موجودہ صدر اور سابق کپتان سارو گنگولی پچھلے دنوں ایک سپر سیریز کا خیال پیش کرچکے ہیں جس کے لیے ان کو کرکٹ کلینڈر میں جگہ چاہیے۔
اگرچہ عالمی سطح پر مخالفت کے بعد وہ خاموش ہوگئے تاہم بھارتی بورڈ کے عزائم دنیا پر واضح ہیں جو دنیائے کرکٹ پر اکیلے حکمرانی کرنا چاہتا ہے۔
کرکٹ کے کھلاڑی اور شائقین کیا سوچتے ہیں؟ شاید آئی سی سی اور کرکٹ بورڈز کو اس سے سروکار نہیں کیونکہ ان کی نظر زیادہ سے زیادہ مالی بنیادوں پر کرکٹ لیگز اور ٹورنامنٹس پر ہے۔
اور یہ سب صرف مختصر دورانیے کی کرکٹ میں ہی مل سکتا ہے۔ کیا اب ٹیسٹ کرکٹ مستقبل قریب میں چار دن کی رہ جائے گی؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب سوال سے پہلے ہی مل چکا ہے، لیکن ایک بات واضح ہے کہ مختصر دورانیے کی کرکٹ کے دور میں ٹیسٹ کرکٹ شاید اب اپنے بقا کی جنگ لڑ رہی ہے۔