پشاور ہائیکورٹ نے رواں برس حکم جاری کیا تھا کہ ضم شدہ قبائلی اضلاع کے اندر دہشت گردی سے متعلق مقدمات کو خیبر پختونخوا کے سات ڈویژنوں میں قائم انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں حل کیا جائے گا، مگر تاحال سابقہ فاٹا میں قائم شدہ عدالتوں میں قیدیوں کے کیس سنے نہیں جا رہے۔
عدالت کا یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا جب پرانے قانون فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن (ایف سی آر) کے خاتمے کے بعد ان علاقوں میں نیا قانونی نظام متعارف ہوا ہے۔
سابقہ فاٹا کی مختلف جیلوں میں ایسے قیدی بھی ہیں جو پاکستان پینل کوڈ کے عسکریت پسندی سے متعلق سیکشن 121، 121 (اے) اور سیکشن 122 کے تحت سزا کاٹ رہے ہیں، لہذا مقامی عدالتیں قائم ہونے پر ان قیدیوں کے خاندانوں نے ضمانت کے لیے اپنی اپنی درخواستیں وہاں جمع کرائیں۔
تاہم ضم شدہ اضلاع کی عدالتوں نے ان زیرحراست اشخاص کے مقدمات لینے سے یہ کہہ کر انکار کیا کہ ان کے پاس ایسے مقدمات حل کرنے کا اختیار ہی نہیں ہے اور ایسا وہ تب ہی کر سکیں گی جب ہائیکورٹ انہیں تحریری طور پر احکامات جاری کرے گی۔
ان درخواست گزاروں میں ایک خاندان مفتی مجتبیٰ کا بھی ہے جوضلع صوابی کے ایک مدرسے کے سربراہ ہیں۔ انہیں دو سال قبل عسکریت پسندی کے شبے میں سیکیورٹی فورسز نے گرفتار کیا تھا اور وہ مہمند جیل میں قید ہیں۔
مفتی مجتبیٰ کے اہل خانہ کے مطابق وہ ہائیکورٹ، ضلعی عدالتوں اور انسداد دہشت گردی کی عدالتوں کے درمیان ’شٹل کاک‘ بن کر رہ گئے ہیں۔
اگرچہ پشاور ہائیکورٹ نے رواں سال 20 مارچ کو دہشت گردی اور عسکریت پسندی کے مقدمات کو انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں حل کرنے کا فیصلہ سنایا تھا لیکن تاحال اس کے فعال نہ ہونے کی خبریں آتی رہتی ہیں۔
ضلع خیبر کی تحصیل جمرود کے ملک بسم اللہ آفریدی نے بتایا کہ انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں ایک مسئلہ یہ ہے کہ یہ قبائلی اضلاع سے بہت دور واقع ہیں۔
ان کے مطابق :’کرم اور کوہاٹ کے درمیان تقریباً 100 میل کا فاصلہ تو ہوگا ہی۔ اسی طرح سوائے پشاور کے باقی ڈویژن بھی کافی دور ہیں۔ اس سے قبائلیوں کو مزید مشکلات ہوں گی۔ اچھا ہوگا کہ سیکشن 121 اور 121 (اے) پر مبنی مقدمات ان اضلاع کی عدالتوں میں ہی حل ہوں۔‘
ملک بسم اللہ آفریدی نے مزید کہا: ’ہو سکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں کوئی (ہائیکورٹ کے) اس فیصلے کو چیلنج کرے، کیونکہ ویسے بھی انسداد دہشت گردی کی عدالتوں نے اب تک ایک بھی مقدمہ حل نہیں کیا ہے۔‘
پشاور ہائیکورٹ کے وکیل مطیع اللہ مروت نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انسداد دہشت گردی کی عدالتیں فعال ہیں، لیکن عوام کی اکثریت کو اس حوالے سے معلومات نہیں ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اس وقت قبائلی اضلاع میں زیرِ التوا اور موجودہ تمام دیوانی مقدمات کو جوڈیشل مجسٹریٹ اور سیشنز جج سن رہے ہیں جبکہ دہشت گردی سے متعلق مقدمات انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں منتقل ہوں گے۔
قانون کی رُو سے ضم شدہ اضلاع میں بنائی گئی عدالتوں کے سیشن جج معمول کے واقعات، دیوانی اور فوجداری مقدمات سننے کا اختیار رکھتے ہیں، تاہم وہ مقدمات جو بلواسطہ یا بلا واسطہ دہشت گردی کے زمرے میں آتے ہیں وہ انسداد دہشت گردی کی عدالتوں کو منتقل ہوں گے۔