ایران کے پاسداران انقلاب کی قدس فورس کے کمانڈر قاسم سلیمانی کو تین جنوری 2020 کو بغداد کے بین الااقوامی ہوائی اڈے کے قریب قتل کردیا گیا تھا۔
اس واقعے سے دو دن بعد ایک مسلح گروہ نے کینیا کے ایک فوجی اڈے پر حملہ کیا اور ایک امریکی فوجی اور پینٹاگون کے دو ملازموں کو ہلاک کردیا۔ یہ حملہ القاعدہ سے منسلک عسکریت پسند گروہ الشباب نے کیا تھا۔
صومالیہ میں مقیم یہ گروہ اب ایک ایسے ایئربیس پر حملہ کر رہا تھا جس پر امریکی اور کینیا کے فوجی موجود تھے۔ جنوبی کینیا میں صومالی سرحد سے متصل علاقے لامو میں موجود کیمپ سمبا الشباب عسکریت پسندوں کے خلاف جنگ کا ایک اہم اڈہ ہے۔
اس واقعے کی خبر امریکہ اور ایران کے مابین ممکنہ جنگ کے بارے میں پریشانی کے باعث دنیا کی توجہ نہ حاصل کر سکی۔ ایران کے ساتھ تناؤ کو کم کرنے کا ارادہ رکھتے ہوئے ٹرمپ انتظامیہ نے کینیا میں ہونے والے اس حملے کو سلیمانی کے قتل سے جوڑنے پر زور نہیں دیا۔
عراق میں عین اسد کے اڈے پر ایران کے چھ جنوری کو ہونے والے حملے کو سلیمانی کے قتل کا جواب سمجھا گیا تھا لیکن ایسا لگتا ہے کہ اصل ردعمل الشباب کا حملہ تھا۔
حملے سے متعلق اپنے بیان میں الشباب نے اس آپریشن کو ’یروشلم کو کبھی بھی یہودیوں کے حوالے نہیں کیا جائے گا‘ کے منصوبے کا ایک حصہ قرار دیا تھا۔ اس حملے سے ایک سال قبل صومالی گروپ نے کینیا کے دارالحکومت نیروبی میں ایک ہوٹل پر حملہ کیا تھا جس میں 21 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ اس حملے کے بارے میں ان کے بیان میں اسے ’یروشلم پر یہودی غلبے کے جواب‘ کے طور پر بیان کیا گیا تھا۔
پانچ جنوری 2021 کو امریکہ اور کینیا کے مشترکہ فوجی اڈے پر کیا جانے والا یہ حملہ اس سے گذشتہ سال کے حملے کے برعکس جلدی میں اور بغیر منصوبہ بندی کے کیا گیا تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ اس گروپ نے اس حملے کو جلد بازی میں کیا اور جلد سے جلد اس کا انتظام کیا۔ منصوبہ بندی اور کارروائی کے طریقہ کار میں واضح فرق اس امکان کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ حملہ جس میں تین امریکیوں کو ہلاک کیا گیا اپنے سب سے معروف کمانڈر کے قتل پر ایران کا بالواسطہ جواب ہوسکتا ہے۔
لیکن قدس فورس کا الشباب سے کیا تعلق ہے؟ ایک ایرانی جرنیل کے قتل کے دو دن بعد ہی القاعدہ سے وابستہ ایک گروپ امریکیوں پر حملہ کیوں کرے گا؟ افریقہ میں قدس فورس کیا کررہی ہے اور یہ اس براعظم میں مداخلت کیسے کرتی ہے؟
افریقہ: ہم آ رہے ہیں
کچھ سال قبل جب حوثیوں نے یمنی دارالحکومت صنعا پر قبضہ کیا تھا اس کے بعد ایران کے ایک رکن پارلیمنٹ اور پاسداران انقلاب کی بسیج فورس کے سابق رکن علی رضا ذکانی نے دعویٰ کیا تھا کہ ایران اب چار علاقائی دارالحکومتوں کو کنٹرول کرتا ہے۔ ان کا مطلب صنعا، بیروت، دمشق اور بغداد تھا۔ گو کہ ذکانی کے دوستوں اور مخالفین دونوں نے اس بات پر تنقید کی تھی لیکن اس کھلے عام اعتراف سے یہ ظاہر ہوا کہ ایران مشرق وسطیٰ میں کس حد تک آگے بڑھ رہا ہے۔ ایران نے عراق میں امریکی ناکامی کے بعد وہاں قدم جمانے کے کے لیے بہت زیادہ رقم خرچ کی ہے۔
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای خطے میں ایرانی اثر و رسوخ کو ایک خاص نام دیتے ہیں۔ وہ اسے ’مزاحمت کا جغرافیہ‘ قرار دیتے ہیں۔ گذشتہ دو دہائیوں سے یہ مشرق وسطیٰ میں ایران، عالمی طاقتوں اور دوسرے ممالک کے مابین تنازعے کی سب سے اہم وجہ رہا ہے۔ دوسرے ممالک میں مقامی گروہوں کا استعمال کرکے ایران کے اثر و رسوخ کو مزید تقویت ملی ہے۔ اس طرح ایران پورے خطے کو غیر محفوظ بنا کر اپنے خلاف کسی بھی فوجی خطرے کا جواب دیتا ہے۔ اتوار کو علی خامنہ ای کا مطلب یہی تھا جب انہوں نے ’غیر فعال سفارتکاری‘ میں قدس فورس کے کردار کی تعریف کرتے ہوئے وزیر خارجہ جواد ظریف کی آڈیو لیک کے پر اپنا رد عمل دیا تھا۔
لیکن اسلامی جمہوریہ ایران صرف مشرق وسطیٰ تک ہی محدود نہیں رہا ہے۔ گذشتہ کچھ سالوں میں اس نے نئے علاقوں میں اپنا اثر و رسوخ پھیلانے کی مستقل کوشش کی ہے۔ سال 2019 کے آخر میں سلیمانی کے قتل سے تین ماہ قبل علی خامنہ ای نے پاسداران انقلاب کے اعلیٰ کمانڈروں سے ملاقات کی۔ انہوں نے مشرق وسطیٰ میں ان کی سرگرمیوں کی تعریف کرتے ہوئے ان سے کہا کہ وہ ’خود کو صرف اس خطے تک محدود نہ رکھیں اور دنیا بھر میں پاسدان انقلاب کے اثر و رسوخ کو پھیلانے میں مدد دیں۔ اس نظریے کو سرحدوں تک محدود نہیں رکھنا چاہیے۔ صرف اپنے خطے تک محدود نہ رہیں۔ ایک وسیع نظریہ سرحدوں سے ہٹ کر سٹریٹجک گہرائی کا تسلسل ہے اور بعض اوقات یہ ہمارے ملک کی اعلیٰ ترجیحات سے بھی زیادہ اہم ہو سکتا ہے۔ اس وسیع جغرافیائی خطے کو ہدف بنانے والا یہ نظریہ پاسداران انقلاب کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ اس طاقت کو کمزور نہ ہونے دیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
چند روز بعد فورس کے اعلیٰ کمانڈر حسین سلامی نے ایک خطاب میں علی خامنہ ای کے خیال کو عملی جامہ پہنانے کی بات کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’پاسداران انقلاب مزاحمت کے جغرافیے کو وسعت دیں گے اور جب دشمن یہ دیکھے گا اسلامی انقلاب کا نظریہ پھیل رہا ہے تو وہ خود بخود منظر سے ہٹ جائے گا۔ اس کے پاس اور کوئی راستہ نہیں ہوگا۔‘
افریقی محاذ
ایران کے اگلے مقاصد کیا ہیں؟ یہ کون سے ممالک اور خطوں میں قدم جمانے کی کوشش کرے گا؟
جنوبی امریکہ اور یورپ وہ دو خطے ہیں جہاں ایران کی اثر و رسوخ پیدا کرنے کی کوشش کو اب تک ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ 1990 کی دہائی کے اوائل میں ایران نے بلقان خطے میں دخل اندازی کے لیے یوگوسلاویہ کی جنگوں کو استعمال کرنے کی کوشش کی۔ بلقان میں اکثریت سنی مسلمانوں کی ہے اور یورپی یونین کی مشترکہ کوششوں کے باعث ایران یہاں اپنے مقاصد حاصل نہیں کر سکا۔
1990 اور 2000 کی دہائیوں میں ایرانی عہدیداروں کی نظریں جنوبی امریکہ پر بھی لگی تھیں۔ اس خطے کے عوام میں نوآبادیاتی مخالف جذبات اور بائیں بازو کی حکومتوں کے عروج نے ایرانیوں کو یہ یقین دلایا کہ وہ امریکہ کے ہمسائے میں داخل ہونے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ خطے کے ممالک پر امریکی دباؤ کے ساتھ جغرافیائی اور تقافتی فاصلے کی وجہ سے بہت سارے وسائل خرچ کرنے کے باوجود ایران یہاں بھی ناکام ہوگیا۔
جب سے ایران نے خود کو یورپ اور جنوبی امریکہ میں مستحکم کرنے کی کوشش کی ہے تب سے ہی افریقہ داخل ہونے کی اس کی کوششوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
براعظم افریقہ میں بڑی تعداد میں موجود لبنانی تارکین وطن کا استعمال کرتے ہوئے ایران ثقافتی مراکز اور انٹیلی جنس تعلقات قائم کرکے اس خطے میں اپنے قدم جمانے کی کوشش کرتا رہا ہے۔
دوسرے دو خطوں کے برعکس یہاں پر ایران بیک وقت کامیاب اور ناکام نظر آتا ہے۔ گذشتہ دو دہائیوں میں پاسداران انقلاب نے سیاسی بحرانوں اور معاشی پریشانیوں کی وجہ سے افریقی ممالک میں موجود گہری تقسیم کو استعمال کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ حزب اختلاف اور باغی قوتوں کی حمایت کی جاسکے اور ایرانی حکومت کے حق میں ان ممالک کے سیاسی ڈھانچے کو تبدیل کیا جاسکے۔ قدس فورس کے یونٹ 400، جسے افریقہ میں یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے، نے افریقہ کے مشرقی اور مغربی دونوں خطوں میں نسلی اور مذہبی اختلافات اور معاشی بدحالی کو استعمال کرنے کی پالیسی پر عمل کیا ہے۔
یونٹ 400 جسے سپیشل آپریشنز یونٹ بھی کہا جاتا ہے کی سربراہی حامد عبد الاہی کرتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اس نئی حکمت عملی میں افریقہ کو اہم موقعے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ لیکن پاسداران انقلاب کے ذریعے کن افریقی ممالک کو نشانہ بنایا گیا ہے؟
کینیا: جہاں القاعدہ اور اسلامی جمہوریہ ملتے ہیں
کینیا قدس فورس کے یونٹ 400 کی کارروائیوں کا مرکز ہے۔ سال 2012 میں کینیا کی پولیس نے دوسرے ممالک کے انٹیلی جنس اداروں کے ساتھ مل کر کام کرتے ہوئے دو ایرانیوں کو گرفتار کیا تھا جن پر برطانیہ، امریکہ، سعودی عرب اور اسرائیل کے خلاف دہشت گردی کی کارروائیوں کی منصوبہ بندی کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ تفتیش کے دوران یہ کہا گیا تھا کہ وہ یونٹ 400 کے ممبر تھے اور وہ کینیا میں اڈہ بنانے کے خواہاں تھے۔ انہیں 15 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی لیکن بعد میں ایران اور کینیا کے درمیان معاہدے کے بعد انہیں رہا کردیا گیا تھا۔
کینیا میں زیادہ تر ایرانی سرگرمیاں ممباسا کی بندرگاہ تک محدود ہیں۔ مسلمانوں کی اکثریت رکھنے والا یہ شہر کینیا کا سب سے اہم سیاحتی مقام ہے۔ کینیا کی سیاحت میں اسرائیل کی سرمایہ کاری نے ملک کو قدس فورس کے ایک اہم ہدف میں تبدیل کردیا ہے۔ کینیا کی حکومت نے اب تک ممباسا میں شیعہ اسلامی مراکز کے قیام کی اجازت نہیں دی ہے جو ایران کی یہاں مقامی تنظیم بنانے کی راہ میں رکاوٹ ہے۔
دوسری رکاوٹ کینیا کی حکومت ہے جو اسرائیل اور مغرب کی انٹیلیجنس اداروں کے ساتھ کام کررہی ہے۔ 2011 میں دو ایرانیوں کی گرفتاری کے بعد سال 2015 میں ایک اور اہم واقعہ ہوا تھا جب کینیا کے دو پولیس اہلکار اور ایک جاسوس سیل کے ارکان کو گرفتار کیا گیا تھا۔ دسمبر 2016 میں دو ایرانی وکیلوں کی گرفتاری عمل میں آئی۔ ان سب پر قدس فورس سے تعلق رکھنے اور جاسوسی کے لیے اسرائیلی اہداف کی نشاندہی کرنے کی کوششیں کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔
کینیا امریکہ کے حلیف کے طور پر جانا جاتا ہے جو اس کے ساتھ مل کر الشباب کے خلاف لڑتا ہے۔ اس کی وجہ سے پاسداران انقلاب اور القاعدہ سے منسلک گروہوں کے مابین مشترکات پیدا ہو گئیں ہیں۔ ان دونوں کا مقصد اسرائیل اور امریکہ کو کینیا سے باہر نکالنا ہے۔ الشباب صومالیہ میں اپنی سرگرمیاں بڑھانا چاہتی ہے اور ایرانی حکومت کا مقصد کینیا کو ’مزاحمتی جغرافیے‘ کا حصہ بنانا ہے۔
اریٹیریا: باب المندب کی جنگ
مشرقی افریقہ میں واقع ایریٹریا میں اثر و رسوخ پیدا کرنا ایرانی حکومت کے لیے تزویراتی اہمیت کا حامل ہے۔ بحیرہ احمر کی مغربی سمت واقع ایریٹیریا کی بندرگاہ اساب باب المندب کا ایک اہم مرکز ہے جو بحیرہ احمر میں تیل کی نقل و حرکت کے لیے بہت اہم ہے۔
پاسداران انقلاب کے لیے اساب اتنا ہی اہم ہے جتنا اریٹیریا کا جنوبی ہمسایہ جبوتی۔ گذشتہ کچھ سالوں میں اس علاقے میں ایرانی بحری افواج اور پاسداران انقلاب کی کم از کم ایک آبدوز کی موجودگی متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے احتجاج کی وجہ بنی ہے۔
اریٹیریا میں درمیانی فاصلے تک مار کرنے والے ایرانی میزائلوں کی موجودگی کے دعوے بھی کیے گئے ہیں حالانکہ ان کا کبھی کوئی واضح ثبوت نہیں ملا ہے۔ یمن میں جنگ سے قبل ایران اور اریٹیریا نے ایک فوجی اور معاشی معاہدے پر دستخط کیے تھے جس کا مقصد تھا کہ ایران اس کو تیل فراہم کرے گا اور بدلے میں اساب کی بندرگاہ کے قریب اور بحیرہ احمر میں موجود اریٹیریا کے جزیرے پر ایک فوجی اڈہ قائم کرنے کا حق حاصل کرے لے گا۔
ایران کے ساتھ اپنے گہرے معاشی اور تجارتی تعلقات کی وجہ سے ابتدائی طور پر اریٹریا نے یمنی جنگ میں حوثیوں کی حمایت کی۔ لیکن جنگ بڑھنے اور سعودیوں اور متحدہ عرب امارات کے ایک فوجی اتحاد تشکیل دینے کے بعد ایریٹیریا نے امارات کے ساتھ ملٹری سکیورٹی معاہدہ کر لیا۔ اس کے نتیجے میں متحدہ عرب امارات اساب کی بندرگاہ میں ایک فوجی اڈہ قائم کرنے میں کامیاب رہا۔ یمن میں حوثیوں سے لڑنے والا عرب اتحاد اسی فوجی اڈے سے اپنے امور چلاتا ہے۔
متحدہ عرب امارات کے ساتھ ایریٹریا کے معاہدے نے اس کو ایران سے دور اور متحدہ عرب امارات اور سعودی اتحاد کے قریب کردیا ہے۔ لیکن ایران کو ابھی بھی امید ہے کہ وہ اس اہم افریقی ملک میں اپنا اثر و رسوخ دوبارہ حاصل کرسکتا ہے۔
سوڈان: آمروں کی رقص گاہ
سوڈان میں ایران کی موجودگی سال 1991 سے جاری ہے جب اسے جنوب میں علیحدگی پسندوں سے لڑنے میں ایک چیلنج کا سامنا تھا۔ ایران کے اس وقت کے صدر اکبر هاشمی رفسنجانی نے سوڈان کا سفر کیا اور اسلحہ بھیجنے کے علاوہ مالی مدد دینے کا وعدہ کیا جس کی مدد سے سوڈان نے جنوب میں جاری اس علیحدگی پسند تحریک پر قابو پا لیا۔ اس کے بدلے سوڈان نے پاسداران انقلاب کو اپنی سرزمین پر کام کرنے کی اجازت دی۔
سوڈان میں نیشنل اسلامی محاذ کی تشکیل، اسلام پسند افریقی عسکریت پسندوں کی تربیت کے لیے خرطوم کے قریب اڈوں کے قیام اور الجزائر سمیت کئی ممالک کو ہتھیار بھیجنے پر تین سالوں کے اندر امریکہ نے سوڈان کو دہشت گردی کی حمایتی ریاستوں کی فہرست میں شامل کر لیا تھا۔
سوڈان کے صدر عمر بشیر کے ایران اور علی خامنہ ای کے ساتھ قریبی تعلقات تھے۔ یمن کی جنگ سے پہلے وہ بین الااقوامی دباؤ میں نہیں آئے لیکن اس جنگ کے بعد سوڈان نے متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کا ساتھ دینے کا فیصلہ کرتے ہوئے اپنے پرانے اتحادی کو نظر انداز کر دیا۔
اس فیصلے کے بعد سوڈان میں سوڈانی اسلام پسند قوتوں اور قدس فورس کے کارکنوں کے لیے سرگرمیاں جاری رکھنا بہت مشکل ہو گیا تھا۔ عوامی احتجاج اور ملک میں غیر واضح صورت حال میں بشیر کی حکومت کے خاتمے کے بعد پاسداران انقلاب نے وہاں ایک بار پھر اپنی سرگرمیاں بڑھا دی ہیں۔ آنے والے مہینوں میں ہم دیکھیں گے کہ کیا سوڈان ایک بار پھر قدس فورس کی افریقی کارروائیوں کا محور بن جائے گا یا یہ ملک ریاض کے قریب رہنے کو ترجیح دے گا۔
سینیگال: اسلامی جمہوریہ کا سفارتی مرکز
مغربی افریقہ میں سینیگال اسلامی جمہوریہ ایران کے لیے دلچسپی کا ایک اور اہم مقام ہے۔ حالیہ برسوں میں اس ملک کے ایران کے ساتھ گہرے تعلقات قائم رہے ہیں اور یہ براعظم افریقہ میں ایران کے لیے ایک سفارتی مرکز کی حیثیت رکھتا ہے۔ افریقہ میں ایران کی زیادہ تر ثقافتی ، سیاسی اور سفارتی سرگرمیاں ڈاکار سے ہی ہوتی ہیں۔
سابق ایرانی صدر محمود احمدی نژاد کے دور میں ایران نے اپنے اثر و رسوخ کو پھیلانے کی امید میں سینیگال کو سمند آٹوموبائل کی پیداوار کا ایک کارخانہ عطیہ کیا تھا۔ لیکن 10 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کے باوجود یہ کارخانہ اب بھی غیر فعال ہے کیونکہ سینیگال اسے بجلی مہیا نہیں کرسکا۔
مراکش: ’مغربی صحارا ہمارا ہے‘
واشنگٹن ڈی سی میں امریکی خارجہ پالیسی کونسل کے نائب صدر ایلن برمن نے حال ہی میں ایک مراکشی عہدیدار کا حوالہ دیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ایران کی صرف مغربی افریقہ میں موجودگی کی طرف اشارہ کرنا غلط ہے کیوں کہ ایران پورے براعظم میں موجود تھا۔
ایرانی حکومت فی الحال مراکش کی حکومت کے خلاف ایک باغی گروپ کی حمایت کرتی ہے۔ لبنان کے حزب اللہ کے ساتھ اشتراک کرتے ہوئے ایران نے کم سے کم 2017 کے بعد سے پولساریو فرنٹ کی حمایت کی ہے۔ مغربی صحارا کی آزادی کا دعوے دار یہ گروہ کئی دہائیوں سے مراکش کے ساتھ جنگ لڑ رہا ہے۔ مراکش نے کئی بار یہ دعویٰ کیا ہے کہ ایران ان باغیوں کو اسلحہ اور رقم فراہم کرتا ہے۔
مراکش ان تعلقات کے بارے میں کافی تشویش کا اظہار کرتا رہا ہے جس کے بعد اس نے سال 2018 میں ایران کے ساتھ اپنے تعلقات منقطع کر دیے تھے۔ کئی اطلاعات سے معلوم ہوتا ہے کہ پولیساریو کے کئی کمانڈر تربیت حاصل کرنے لبنان جا چکے ہیں۔ مراکش کے دو ہمسایہ ممالک موریطانیہ اور تیونس میں بھی ایران کی کافی موجودگی ہے اور خیال کیا جاتا ہے کہ ایران وہاں بھی اتحادیوں کی تلاش کے لیے سخت محنت کر رہا ہے۔
یہ ماڈل اس طریقہ کار سے بہت ملتا جلتا ہے جو گذشتہ 15 سال کے دوران ایران نے لاطینی امریکہ میں اپنایا ہے جس کا مقصد وہاں حمایتی، مغربی دنیا میں پابندیوں کو شکست دینے کے طریقہ کار کی تلاش، امریکہ مخالف حکومتوں کی قربت حاصل کرنا اور ایسی حیثیت پانا ہے جو امریکہ کے لیے خطرہ بن سکے۔ اس کے نتائج کافی حوصلہ افزا رہے ہیں۔
جنوری 2020 میں قاسم سلیمانی کے قتل کے بعد افریقہ اور خاص طور پر مراکش میں ایران کی دلچسپی میں اضافہ ہوا ہے۔ افریقہ کے سیاسی عہدیداروں کو خدشہ ہے کہ تہران امریکی مفادات یا افریقہ میں اس کے اتحادیوں کے مفادات کو انتقامی کارروائی کا نشانہ بنا سکتا ہے۔
اس وجہ سے مراکش میں خاصی تشویش پائی جاتی ہے۔ اسی لیے رباط ایران اور حزب اللہ کی نگرانی کے لیے اپنی کوششوں کو بڑھا رہا ہے۔ مراکشی عہدیداروں کو ایران کے حتمی دوہرے مقصد کے بارے میں کوئی شک نہیں ہے: جو شیعہ مسلمانوں کو مستحکم کرنا اور انہیں خطے کی سیاست میں اثر و رسوخ پھیلانے کے لیے ایک سیاسی اوزار کے طور پر استعمال کرنا ہے۔ اس کے علاوہ اس کا مقصد ایک آپریشنل صلاحیت پیدا کرنا ہے جو ایک دن امریکہ کے خلاف استعمال ہوسکے۔
نائیجیریا: افریقہ میں شیعہ مرکز
مغربی افریقہ میں نائیجیریا میں شیعہ مسلمانوں کی آبادی سب سے زیادہ ہے اور یہ ایرانی حکومت کی مذہبی سرگرمیوں کا محور ہے۔ ایک وسیع معاشی منصوبے کے تحت سال 2006 میں ایران نائیجیریا میں داخل ہوا۔ ملک میں ثقافتی اور فلاحی شیعہ مراکز بنانے میں کامیابی کے بعد ایران نے نائیجیرین شیعہ مسلمانوں کی توجہ حاصل کی۔ اس وسیع دلچسپی سے قبل ایران کے پاس ابراہیم زکزکی اور حافظ سید محمد جیسے حامی تھے جنہوں نے دارالحکومت ابوجا میں شیعہ عقائد کو پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
پانچ سال قبل عرب ممالک کی سرمایہ کاری کے بعد نائیجیریا نے اپنی پالیسی تبدیل کردی اور ایران کے اثر و رسوخ کو محدود کرنے کی کوشش کی۔ ایک نئی سیاسی سوچ کے بعد نائیجیریا کی حکومت نے ان سرگرمیوں پر پابندی عائد کردی ہے اور الزام عائد کیا ہے کہ شیعہ تحریک دہشت گردی میں ملوث ہے۔ زکزکی کے جیل میں رہنے کے باوجود ایران نائیجیریا میں اپنا اثر و رسوخ قائم رکھے ہوئے ہے۔
کیا افریقہ مزاحمت کے جغرافیے میں شامل ہوگا؟
اسلامی جمہوریہ نے افریقہ میں لاکھوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔ یہ سرمایہ کاری صنعتی یا معاشی ترقی کے لیے نہیں بلکہ مذہبی اور نسلی گروہوں کے بدعنوان رہنماؤں اور سیاستدانوں کو مدد دینے کے لیے کی گئی ہے۔
مانا جاتا ہے کہ ان ’کھلے دروازوں‘ سے اسلامی جمہوریہ کو افریقہ میں داخل ہونے اور قدم جمانے کی اجازت مل سکے گی۔ لیکن افریقہ میں طاقتور کھلاڑی اور حریف موجود ہیں جس کا مطلب ہے کہ یہاں ایران کو قدم جمانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
افریقی ممالک میں اب بھی امریکہ، اسرائیل، فرانس، سعودی عرب اور چین کا اثر و رسوخ ایران سے زیادہ ہے۔ افریقہ میں سیاسی دشمنیوں، دولت اور طاقت کے مقابلے نے ایران کے لیے راستے کھولے ہیں۔
لیکن افریقہ ایک ایسا براعظم ہے جس میں تیزی سے ترقی ہو رہی ہے۔ اگرچہ اس وقت قدس فورس کو افریقہ میں اپنا مضبوط وجود قائم کرنے کا کام سونپا گیا ہے لیکن یہ تب ہی ہوگا جب ایرانی حکومت افریقہ میں فوجی دستے اور اسلحہ بھیجنے کے لیے ایک محفوظ راستہ تلاش کرنے کے قابل ہو گی۔ جیسا کہ علی خامنہ آئی کہتے ہیں کہ ’ہمارے حامی گروہوں کو ضروری اسلحہ فراہم کیا جائے۔‘
اسلامی جمہوریہ کے لیے ایک خاص ملک افریقہ کی کنجی ہے۔ ایک ایسا ملک جو پچھلے کچھ سالوں میں انتشار اور خانہ جنگی کا نشانہ بنا تھا تاکہ اس کا سیاسی توازن تہران کے حق میں ہو جائے۔ وہ ملک یمن ہے۔ اگر ایران کو افریقہ میں اپنے خوابوں کو پورا کرنا ہے تو اسے یمن کو اپنے مدار میں لانا ہو گا۔